صہیونی نظریہ پردازوں کا شوق ہے کہ صہیونیت کو ایک فکر کے طور پر متعارف کرائیں ایسی فکر جس کی جڑیں تاریخ کی گہرائیوں میں پیوست ہیں لیکن یہ لوگ اپنے اس مدعا کے اثبات کے لئے کوئی مدلل ثبوت پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
امریکہ کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کی پالیسی کے باعث نہ صرف امریکی عوام کی نظروں میں اپنا معیار کھو چکی ہے بلکہ دنیا کی دیگر مہذب قومیں بھی امریکی حکومت کی ایسی پالیسیوں کو کہ جس کے تحت امریکہ ہر دہشت گردی کے اقدام کی حمایت کرتا ہے، سخت مخالف کر رہے ہیں۔
بحرین کی یہودی سفیر «هدی عزرا نونو» کی طرف سے ایک اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بحرین میں یہودیوں کو رہنے کی دعوت دینے کے بارے میں جو تبصرے ہیں، وہ آیت اللہ عیسیٰ قاسم کی گزشتہ مئی کے انتباہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ تمام منصوبے برطانیہ اور امریکہ میں ساکن صہیونی یہودیوں کے ذریعے انجام پا رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے صہیونیوں کے درمیان اتنے گہرے تعلقات پائے جاتے تھے کہ نہوم سکولوو (nahum sokolow) اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جو بھی منصوبہ لندن میں تیار ہوتا تھا امریکہ میں صہیونی تنظیم کے ذریعے اس پر جائزہ لیا جاتا تھا اور امریکہ میں صہیونیوں کے جانب سے پیش کئے گئے ہر منصوبے کو لندن میں عملی جامہ پہنایا جاتا تھا‘‘۔
کرنا پڑا، امریکہ نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ویٹو کا پاور استعمال کر کے یا اقوام متحدہ کی مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دے کر صہیونی ریاست دفاع کیا ہے۔
بالفور اعلامیہ حقیقت میں اس منظم سازش کا ایک حصہ تھا کہ جس کے تحت فلسطین پر صہیونی یہودی ریاست مسلط کر کے برطانیہ اور امریکا نے اپنے اور صہیونی سامراج کے مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔آج اقوام عالم، یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ آخر بالفور اعلامیہ کی صورت میں فلسطینی عوام کے ساتھ جو خیانت اور ظلم کیا گیا تھا کیا آج دور جدید کی حکومتیں برطانوی اور امریکی حکومت سے سوال اٹھائیں گی ؟
قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں طاغوت سے جہاد اور مستضعفین کی حمایت اہل ایمان کا فریضہ ہے اور آج ملت فلسطین اللہ کی راہ میں طاغوت کا مقابلہ کرنے میں سرفہرست ہے لہذا ان کی مدد کو پہنچنا تمام اہل ایمان کا فریضہ ہے۔
۔ مسجد الاقصیٰ واحد وہ مسجد ہے جس کی طرف رخ کرنے کا تمام انبیاء کو حکم دیا گیا۔ یہ واحد وہ مسجد ہے جس کی طرف سفر کرنے کی پیغمبر اکرم (ص) نے تاکید فرمائی ہے۔
بہائیوں اور صہیونی یہودیوں کے درمیان تعلقات مرزا حسین علی کے دور سے ہی موجود تھے، لیکن عباس افندی کے زمانے میں ان تعلقات میں مزید گہرائی اور گیرائی آئی۔ خیال رہے کہ عباس افندی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب صہیونی یہودی فلسطین میں یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے بھرپور جد و جہد کر رہے تھے۔