جب سے "سید حسن نصر اللہ" کے جنازے کی تشییع کا وقت اعلان ہوا ہے، ہر روز اس کی روک تھام کے لیے کوئی نہ کوئی نیا منصوبہ بن رہا ہے ، گویا "شہید سید" کے پاکیزہ جسد کے خلاف ایک عالمی جنگ جاری ہے۔
"سید حسن نصراللہ" محض کسی مزاحمتی تحریک کے رہنما نہیں تھے، بلکہ وہ خطے کی سب سے مؤثر شخصیات میں سے ایک تھے، جنہوں نے مزاحمت، بالخصوص فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اس کی راہنمائی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس تحریک کو پتھروں سے لے کر "طوفان الاقصیٰ" تک پہنچایا۔
میری نظروں سے فلسطین پر جو اب تک موقف گزرا ہے، شاید سعودی عرب کی طرف سے سخت ترین ردعمل انہی کا تصور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ فلسطینیوں کو بسانا چاہتے ہیں تو جفا، حائفہ اور دیگر شہروں جن پر قبضہ اسرائیل نے کیا ہے، وہاں ان کو بسائیں۔
"ہم سب (یوکرینی) دھوکہ کھا گئے اور بوداپسٹ معاہدے پر تالیاں بجائیں، لہٰذا ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری عوامی خوشی، میڈیا پروپیگنڈے اور تشہیر کے ذریعے انجام دی گئی، لیکن اب ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ایک فاش غلطی تھی۔
معروف امریکی ماہرِ معیشت نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں سے امریکہ میں مہنگائی کے ساتھ اقتصادی جمود پید ا ہوگا، جس سے یہ ملک سرمایہ کاری کے لیے ایک خوفناک مقام بن چکا ہے۔
مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیاں اور ان میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت نے صہیونی حلقوں کو شدید حیرت میں ڈال دیا ہے۔
"ایلان ماسک"، امریکی وزارتِ کارآمدی کے سربراہ نے ایک تازہ انکشاف میں امریکہ کی تاریخ کے سب سے بڑے مالی دھوکہ دہی کا پردہ فاش کرتے ہوئے کہا کہ لاکھوں مردے امریکہ میں پنشن وصول کر رہے تھے!
یہ معاملہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے لئے اہم ہے، جو برسوں سے امریکی مداخلت اور دشمنی کا تلخ تجربہ بلکہ اب یہ چیز عالمی سطح پر اور خود واشنگٹن کے قریبی اتحادیوں میں بھی امریکہ پر عدم اعتماد ایک مشترکہ تجربہ کی حثیت سے اتنی اہم بن گئی ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
قاہرہ کی جانب سے صحرائے سینا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافے اور اس کی مضبوطی نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا، اور صیہونی حلقوں نے اسرائیلی فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ممکنہ فوجی تصادم کے لیے تیار رہے۔