صہیونی تفکر کے بھید بھاو پر مشتمل دنیاوی طرز فکر اور نسلی برتری کے نظریہ کی بنیاد پر یہ اجتماعی و معاشرتی شگاف مزید گہرا ہوتا جا رہے.
بطور خلاصہ مالدار اور معروف یہودی صرف مشہد، گیلان اور مازندران میں ہی موجود نہیں تھے بلکہ ایران کے دیگر شہر جیسے کاشان، ہمدان اور یزد وغیرہ میں بھی کافی تعداد میں تھے جو اس فرقہ ضالہ کے ساتھ ملحق ہو گئے تھے۔ لہذا فرقہ بہائیت مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے بلکہ اس کے بانی اور اس کو پروان چڑھانے والے یہودی اور سامراجی طاقتیں ہیں۔
بہشت یہودیوں سے مخصوص ہے اور ان کے علاوہ کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتا لیکن عیسائیوں اور مسلمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
یہودیوں کے لئے تلمود کا حکم ہے: “غیر اسرائیلی صالح اور نیک انسانوں کو قتل کرو”، نیز اس کا حکم ہے: “جس طرح کہ مچھلی کا پیٹ چیرنا جائز ہے، انسان کا پیٹ کھولنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ عمل روز شنبہ کے بڑے والے روزے کے دن ہی کیوں انجام نہ دیا جائے”۔
یہودیوں کے ہاں دو خونی رسمیں ایسی ہیں جن سے ان کے بزعم، “یہوہ” خوشنود ہوجاتا ہے؛ ایک انسانی خون سے آلودہ روٹیوں کی عید (عید فطیر) ـ عید فصح ـ ہے اور دوسری یہودی بچوں کے ختنہ کرنے کی رسم ہے جس میں یہودی رابی ختنہ سے نکلنے والا خون پی لیتے ہیں۔
یہودی مؤثر قومی ذرائع ابلاغ کے مالک بن چکے ہیں اور ان کے انتظام کو اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں؛ اور وہ یہودیوں کی ایک دوسری بااثر جماعت کی مدد سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی جانب سے، نہایت تباہ کن پالیسی نافذ کر رہے ہیں۔
اگر صہیونی تحریک کی بنیاد پر نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پوری تحریک اور اس کا فکر و فلسفہ انتہا پسندی، نسل پرستی اور تشدد پر مبنی ہے۔ دہشت گردی، شدت پسندی، دوسری اقوام پر غلبہ اس تحریک اور اس کے حامیوں کے دل ودماغ میں رچا بسا ہے۔
صہیونیوں کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں مخلص، متدین اور مجاہد علماء کا وجود ہے۔ وہ علماء جو دین کی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور دین کو صرف نماز و روزے میں محدود نہیں جانتے ہمیشہ سے باطل طاقتوں کے لئے چیلنج بنے رہے ہیں اور باطل طاقتیں ان کے چہروں میں اپنے زوال کا نقشہ دیکھتی رہی ہیں۔
لیونی کا کہنا تھا کہ جنسی تعلق قائم کرنا، موساد میں اس کی پیشہ ورانہ زندگی کا حصہ رہا تھا اور وہ عرب حکام سے اہم سیاسی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان سے جنسی رابطہ قائم کرلیا کرتی تھی۔