اس وقت جبکہ صیہونی یہ توقع کر رہے تھے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا میں اسرائیل سے نفرت کا رجحان کم ہوگا، رپورٹیں اس رجحان کے تسلسل کی نشاندہی کر رہی ہیں۔
غزہ میں نیتن یاہو کے اہداف کی ناکامی اور القسام کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل اور پوری دنیا کو پہنچنے والے بڑے صدمے کا ذکر کرتے ہوئے عطوان نے کہا کہ جن لوگوں نے نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا وہ مزاحمت کے بہادر جنگجو تھے جنہوں نے اسرائیلی فوج کو بے بس کر دیا، ٹرمپ نے نہیں۔
غزہ میں تقریباً سولہ ماہ کی بمباری، صہیونیوں کے جرائم اور قتل عام کے بعد، ایک طرف، اور غزہ کے لوگوں کی ناقابل بیان اور قابل ستائش مزاحمت کے بعد، اب یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلسطین اور مزاحمت کا مستقبل کیا ہوگا؟
ایران ٹرمپ کے کھیل اور اس کی تصویر سازیوں سے بخوبی واقف ہے اور وہ اسے اور امریکی حکومت کو حقیقت کے طور پر دیکھتا ہے۔ آج امریکہ مختلف چھوٹے اور بڑے مسائل میں الجھا ہوا ہے؛ اس کا سخت حریف چین اور روس ہے اور یورپ کے ساتھ بھی چیلنجز کا سامنا کرے گا۔
ٹرمپ "عظیم تر اسرائیل" کے افسانے کے حامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہیں اولیاء اور نبیوں میں شمار نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس کے پاس عربوں کے لئے ذلت کے سوا کچھ نہیں ہے...
عمر فاروق گرگرلیاوغلو نے حکومت کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کے خاتمے کے دعوے کو جھوٹ قرار دیا اور سیٹلائٹ تصاویر اور بحری ٹریکنگ ڈیٹا کے ذریعے نِسوس ڈیلیوس اور سی ویگور جہازوں کے ترکی کے جیحان اور مقبوضہ علاقوں کے اشکلون بندرگاہ کے درمیان تیل لے جانے کے شواہد پیش کیے۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر دینا بذات خود اس کی بہت بڑی شکست ہے کیونکہ غزہ جنگ کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد ہی حماس کو نابود کر دینا تھا۔ لیکن اب حماس سے جنگ بندی معاہدہ طے پانا اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ حماس کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ وہ اس پوزیشن میں بھی ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے لیے امریکہ اور اسرائیل سے اپنی شرطیں منوا سکے۔
صہیونی حکومت نے آخر کار 15 ماہ کی بھاری اقتصادی قیمت ادا کرنے کے بعد نیزغزہ میں جنگ کے مقاصد میں ناکامی کے بعد جنگ بندی قبول کر لی۔
صیہونی معاشرہ اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے؛ ایک نیتن یاہو کی اصلاحات کا حامی اور دوسرا مخالف اور روز بروز ان دونوں دھڑوں کے درمیان خلیج اور دراڑ بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح طوفان الاقصی آپریشن کے بعد حماس کی جانب سے بڑی تعداد میں اسرائیلی یرغمالی بنا لیے گئے اور ان یرغمالیوں کی آزادی کے مسئلے نے بھی صیہونی معاشرے کو دو لخت کر دیا ہے۔