جوزف عون کا لبنان کے صدر کے طور پر منتخب ہو جانے نے اس اختلاف کا خاتمہ کر دیا جو گذشتہ 26 ماہ سے لبنان کے مختلف پارلیمانی گروہوں کے درمیان چلا آ رہا تھا۔ اس چناو نے ثابت کر دیا ہے کہ لبنان کے ریاستی ادارے عقلانیت، قومی وحدت اور سیاسی اور قومی اختلافات کے حل کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔
ایک امریکی ویب سائٹ نے اپنے ایک مضمون میں ریاست کیلیفورنیا میں لاس اینجلس کی آگ اور صیہونی حکومت کے حملوں کے بعد غزہ کی نازک صورتحال کے درمیان تعلق پر تبادلہ خیال کیا اور ان بحرانوں سے سبق سیکھنے کا مطالبہ کیا۔
تحریر الشام ظاہری طور پر شام پر قابض ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام کے مختلف حصے روس سمیت دیگر ممالک کے زیر اثر ہیں، اسی طرح وہاں ترکی اور اسرائیلی حکومت بھی موجود ہے، لہذا سنجیدگی سے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ تحریر الشام مکمل طور پر شام پر حاوی ہے اور اقتدار پر ان کا قبضہ مکمل ہو گیا ہے۔
ٹرمپ نے ایک انارکی پسندانہ پالیسی کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے دیگر شراکت داروں کو اہم بین الاقوامی اخراجات کے ساتھ تنہا چھوڑنے کی کوشش کی ہے۔
صیہونی میڈیا نے اسے "شہد کی مکھی کےچھتہ" کا لقب دیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل کبھی بھی وہاں مزاحمت پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوگا۔
صہیونیستی رجیم کی توسیع پسندانہ حکمت عملی میں "قنیطرہ" کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس صوبے کا بڑا حصہ اب اس رژیم کے زیر قبضہ ہے۔
صیہونی ریاست، جس نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران داخلی اور خارجی چیلنجوں کے جائزے اور ان سے نمٹنے کے طریقے کے لیے خاص اور عام طور پر مستحکم حکمت عملی اور ترجیحات مرتب کی تھیں، 2025 میں جنگ کے نتائج کے سائے میں خود کو پیچیدہ اور ناقابل حل چیلنجوں کے درمیان پاتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: "آج ایٹم بم ایک علاقے کو جسمانی طور پر تباہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے، لیکن میڈیا کے پاس اقوام کی سوچ اور روح کو تباہ کرنے اور ایک خاص ذہنیت پیدا کرنے کی طاقت ہے، اور یہ اثرات بہت بڑے ہو سکتے ہیں۔ میڈیا ایٹم بم کا متبادل بن سکتا ہے؛ خاص طور پر جب یہ میڈیا دشمن کے ہاتھ میں ہو۔"
صہیونی ریاست میں یہ باور پایا جاتا ہے کہ مختصر جنگوں کا دور ختم ہو چکا ہے اور اب اسرائیلی فوج کو طویل جنگوں کے دور میں داخل ہونے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔