مقبوضہ فلسطین کے شہر حیفا میں عباس افندی کی موت اور تدفین کے ساتھ ہی، یہ شہر بہائیوں کا مقدس شہر بن گیا اور بہائیت کے مرکزی انتظامی ادارے نے حیفا کے مقام پر "بیت العدل الاعظم" کے عنوان سے، بہائیوں کی قیادت سنبھالی۔
"اسلامی فقہ کونسل"، جس میں وہابیت سمیت تمام مذاہب کے 57 اسلامی ممالک کے فقہاء شامل ہیں، نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں بہاء اللہ کی طرف سے کئے گئے نبوت اور نزول وحی کے دعوے نیز بہائیوں کے دیگر عقائد کو ضروریات دین کے انکار کا مصداق قرار دیا۔
بہائیوں کے اس عمل میں کئی مقاصد پیش نظر تھے؛ ایک یہ کہ شہنشاہی حکومت کو علماء کا مقابلہ کرنے کے لیے اکسائے، دوسرے یہ کہ ایران کو عرب ممالک سے دور کرے، تیسرے یہ کہ شہنشاہی حکومت پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے پر مجبور کرے۔
شوقی افندی کے تدفین کی رسومات بھی صہیونی حکومت کی کافی توجہات کا محور رہیں، ان کی موت کے بعد صہیونی ریاست نے برطانیہ میں اپنے سفیر کو حکم دیا کہ وہ بذات خود ان کے تدفین کی رسومات میں شرکت کرے۔
مخالفین نے جب شوقی کو دھمکانے کی کوشش کی تو شوقی صہیونی ریاست کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے متمسک ہوئے اور ایک ملاقات کے بعد حکومتی کارندوں نے مخالفین کے تمام عمارتوں کو مسمار کر کے انہیں کچل دیا۔
بہائیوں اور صہیونی یہودیوں کے درمیان تعلقات مرزا حسین علی کے دور سے ہی موجود تھے، لیکن عباس افندی کے زمانے میں ان تعلقات میں مزید گہرائی اور گیرائی آئی۔ خیال رہے کہ عباس افندی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب صہیونی یہودی فلسطین میں یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے بھرپور جد و جہد کر رہے تھے۔
’شوقی افندی‘ کے بقول صہیونیت کی حاکمیت کے دوران بہائی اوقاف کے نام سے فلسطین میں ایک شاخ قائم کی گئی کہ جس سے ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا اور اس کے علاوہ بہائیوں کے مقدس مقام کے نام پر دنیا بھر سے جو کچھ فلسطین آتا تھا وہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس سے معاف ہوتا تھا۔
بطور خلاصہ مالدار اور معروف یہودی صرف مشہد، گیلان اور مازندران میں ہی موجود نہیں تھے بلکہ ایران کے دیگر شہر جیسے کاشان، ہمدان اور یزد وغیرہ میں بھی کافی تعداد میں تھے جو اس فرقہ ضالہ کے ساتھ ملحق ہو گئے تھے۔ لہذا فرقہ بہائیت مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے بلکہ اس کے بانی اور اس کو پروان چڑھانے والے یہودی اور سامراجی طاقتیں ہیں۔
فرقہ بابیہ کا آغاز ’سید علی محمد شیرازی‘ سے ہوتا ہے جو ’’باب‘‘ کے نام سے معروف ہوئے۔ یہ شخص پندرہ سال کی عمر میں اپنے ماموں کے ہمراہ ایران کے شہر بوشہر میں تجارت کی غرض سے گیا اور وہاں تجارت کے ساتھ ساتھ اس نے ریاضت کر کے کچھ شعبدہ بازی بھی سیکھ لی۔