جو چیز قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترغیب دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ “میٹی گولن” ایک متعصب اسرائیلی یہودی ہے اور اس کے برخلاف جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان ملکوں کے روابط جیسا کہ میڈیا دکھاتا ہے اندرونی طور پر بھی ویسے ہی دوستانہ ہیں، اس کتاب میں ان کے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔
یاسر عرفات اس کے باوجود کہ ایک فعال، ایکٹو اور فلسطینی مقاصد کے تئیں جذباتی شخص تھے، ایک مغرور سیاست دان اور اپنے گرد و نواح میں رہنے والوں کے اوپر بھرسہ نہ کرنے والے شخص بھی تھے۔ التبہ ان کی یہ خصوصیات کسی حد تک فلسطینی مقاصد کی راہ میں کی جانی والی مجاہدت میں اخلاص کے منافی تھیں۔
کتاب کا مقدمہ جنگ کے کلی پہلووں جیسے صہیونی حکومت کی جنایت و تعدی، صہیونی ظلم و جنایت کا بین الاقوامی انعکاس ،غزہ کی پائداری و مزاحمت اور مظلومیت وغیرہ کو بیان کر رہا ہے ۔
یہ قیمتی کتاب، ایک مقدمہ، ایک پیش لفظ اور کلی عناوین کے تحت سات فصلوں پر مشتمل ہے، مصنف نے اسی طرح کتاب کے اختتام میں ضمیمہ کے عنوان سے ایک حصہ مخصوص کیا ہے جس میں اسرائیل کی موساد اور ایرانی شہنشاہیت کی خفیہ ایجنسی ساواک کے درمیان خفیہ اطلاعات، سیاسی اور اقتصادی مشترکہ تعاون کو بیان کیا گیا ہے ۔
یہ کتاب تاریخ کے بارے میں ایک کاوش ہے، جس کا آغاز چند ذاتی داستانوں سے ہوتا ہے۔ مصنف اس کتاب کی سطور میں پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی جبری جلاوطنی کے افسانے پر بطلان کی لکیر کھینچے ہیں اور کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے یہودی ان نومذہب یہودیوں کی اولاد میں سے ہیں جن کی جنم بومیاں مشرق وسطی اور مشرقی یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جان میری گیانو یہ مانتے ہیں کہ: مغربی لوگ یا بہ الفاظ دیگر مارڈرنیسم کی طرف کوچ کرنے والے بغیر کسی وقفہ کے اس راستہ پر چلتے چلتے اب تھک چکے ہیں جس نے چند صدیوں قبل ترقی و پیشرفت کی فکر کو ان کے متھے جڑ دیا تھا، چنانچہ اب ان کی یہ آرزو ہے کہ کچھ دیر وہ ٹہر کر آرام کر لیں اور پیشرفت کے لدے ہوئے اس بوجھ کو زمین پر دھر کر خود چھٹکارا پا جائیں۔
اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ امریکہ اور نہ یورپ کوئی بھی عالمی طاقت میں تبدیل نہیں ہو سکیں گے ، لہذا بہتر یہی ہوگا کہ عالمی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے چینلوں یا چند قطبی دنیا کی بات کی جائے اس لئے کہ جس طرح موجودہ دور کی صورت حال سامنے آ رہی ہے اس کے مطابق جمہوریت عالمی سیاست کے ایک پیکر کو وجود بخشنے کے لئے ناکار آمد ہے۔
یہ کتاب یہودی ریاست کے لئے پیریز کے خیالات اور اقدامات کی پیروی کرتی ہے اور اس کے مستقبل کے اقدامات کی پیشین گوئی کے لیے مفید ہے۔
مصنف نے اپنی اس کاوش کے نتیجے میں تاہم بیس مرتبہ سے زیادہ عالمی ایوارڈ حاصل کئے ہیں جن میں برطانیہ کا سب سے بڑا ایوارڈ ” برطانیہ کا اعلی ترین برطانوی صحافی ایوارڈ” اور اقوام متحدہ کا “میڈیا امن ایوارڈ” بھی شامل ہیں۔ نیز انہوں نے اپنی ٹی وی رپورٹس کی وجہ سے آسکر ایوارڈ (Oscars)، Emmy Award اور فرانس سے Reporters Without Borders Awards بھی حاصل کئے ہیں۔