اس کتاب میں ایسے حالات کو بیان کیا گیا ہے جو دوران حیات مردوخ کی ترقی کا باعث بنے ہیں اور صہیونیت کے ہاتھوں ایک ابلاغی سلطنت کے قیام پر منتج ہوئے ہیں۔
اس کتاب میں واضح طور پر اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی سیاست مداروں نے عراق اور افغانستان میں ہزاروں لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا جبکہ صہیونی چھوٹی سی منظم لابی کے سامنے انکی گھگھی بندھی رہتی ہے اور انکی حقارت کی انتہا نہیں ۔
اس کتاب کے پہلے حصے کا نام ’’بنی اسرائیل سے اسرائیل تک‘‘ ہے اس دوران کے یہودیوں سے متعلق تمام باتیں جو آپ جاننا چاہیں کتاب کے اس حصے میں موجود ہیں۔
اسرائیل و ایٹمی ہتھیار نامی کتاب اسرائیل کے موجودہ ایٹمی ہتھاروں کے اسلحوں کے انبار کے ساتھ اسکی ایٹمی توانائی کی صلاحیت کے سلسلہ سے لکھی گئی ہے ۔
اس کتاب کے پڑھنے والے محترم قاری کو ان عجیب حوادث و دلائل کو پڑھنے کا موقع ملے گا جسے اس کتاب کے مصنف نے ۲۰ سال کی جانفشانی کے بعد اس شخص کے جاسوس ہونے کو ثابت ہونے کے لئیے یکجا کیا ہے۔
بہر کیف! اس بات کو ماننا پڑے گا کہ یہ کتاب صہیونی حکومت کی اطلاعاتی کار گزاریوں اور اس جانب سے انجام پانے والی جاسوسی کاروائیوں، کو سامنے لانے کے علاوہ وسیع پیمانے پر فن حرب سے متعلق بعض ایسے طریقہ کار کو اپنے مخاطب کے سامنے پیش کرتی ہے جنہیں صہیونی حکومت مسلسل انجام دیتی رہتی ہیں، یعنی کہا جا سکتا ہے کہ کتاب صہیونی حکومت کے فن حرب سے متعلق بڑے منصوبوں کو کتاب سامنے لاتی ہے۔
جو چیز قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترغیب دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ “میٹی گولن” ایک متعصب اسرائیلی یہودی ہے اور اس کے برخلاف جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان ملکوں کے روابط جیسا کہ میڈیا دکھاتا ہے اندرونی طور پر بھی ویسے ہی دوستانہ ہیں، اس کتاب میں ان کے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔
مولف اپنی کتاب کی ایک اہم ترین فصل میں امریکہ کے زوال کے مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلسل نابودی کی طرف گامزن ہے۔
یہ کتاب جو ۱۴۴ صفحوں پر مشتمل ہے اس میں یاسر عرفات کی شخصیت کا تعارف، تحریک آزادی فلسطین میں ان کے کردار اور سیاسی رد عمل کو بخوبی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔