یمن کے عوام کی مظلومیت کے لئے کسی نے بھی ہیش ٹیگ ٹرینڈ نہیں کئے، جارح سعودی اور نہیانی ریاستوں پر کوئی پابندی نہیں لگی، انہیں کسی بھی سپورٹس پروگرام کی میزبانی سے محروم نہیں کیا گیا اور ان ریاستوں کے تیل اور گیس کی برآمدات جاری ہیں۔۔
امریکا کے جھوٹ تو ساری دنیا پر آشکار ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر کئی ممالک نے کہا کہ عراق کی صدام حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ یہ کہہ کر ان کی افواج نے عراق پر چڑھائی کر دی۔ عراق کے عوام پر اس کے بعد جو گزری، ساری دنیا اس کی شاہد ہے۔ دو ملین سے زیادہ انسان خون میں نہا گئے۔ پورا ملک تباہی اور بربادی کی داستانیں بیان کر رہا ہے۔ امریکہ ابھی تک عراق کے عوام کی جان چھوڑنے کو آمادہ نہیں، جبکہ خود امریکا، برطانیہ اور عالمی ادارے تسلیم کرچکے ہیں کہ عراق سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں مل سکے۔ دو دہائیاں ہوگئی ہیں، ایسے ہتھیار تو نہیں ملنے تھے اور وہ نہیں ملے، لیکن امریکی ہتھیاروں نے جو وحشت آفرینیاں کی ہیں، وہ انسانی یاداشت میں بھی زخم کی صورت میں باقی رہ جائیں گی۔
یعنی وہاں پر اگر ہم نے جنگ اور تباہی سرزد کی ہے تو اس کی وجہ بھی وہ ہیں، ہم نہیں۔ ہم نے تو وہاں دخل اندازی کرکے خود کو بچایا ہے اور وہاں کی عوام پر احسان کیا ہے۔ لہذا وہ جنگ اور بدامنی کے حقدار ہیں، ہم جیسے لوگ نہیں۔
دولت کی تقسیم کے اس عمل نے امریکہ کو عالمی معیاروں کے مطابق سالانہ آمدنی اور ذاتی دولت میں عدم مساوات کی بدترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ یہاں تک کہ آج امریکہ ترقی یافتہ ممالک کے درمیان سالانہ آمدنی اور ذاتی دولت میں عدم مساوات کی انتہاؤں پر ہے۔
امریکی نظام نہایت خطرناک اور جاہ طلبانہ طرز سلوک کی وجہ سے ایک لمحاتی بم (moment bomb) کی صورت اختیار کر گیا ہے جو نہ صرف امریکی معیشت بلکہ عالمی معیشت کو بھی خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔
عالمی اسمبلی برائے تقریب مذاہب اسلامی، کے سیکریٹری جنرل حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حمید شہریاری نے سعودی-اماراتی اتحاد کی مذمت کی جنہوں نے کفار کو اپنا دوست قرار دیا ہے، انہوں نے سعودی و نہیانی حکمرانوں سے مخاطب ہو کر کہا: اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اطاعت کرو اور جان لو کہ مسلمانوں کا قتل عام تمہیں تمہارے اہداف تک نہیں پہنچا سکتا۔
رفتہ رفتہ، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، امریکی فوجی بغاوتوں اور مختلف قسم کی مداخلتوں سے واضح ہوا کہ جس چیز کو امریکی سپنے [American Dream] کے طور پر پہچانا جاتا تھا وہ دوسری قوموں کے لئے درندگی اور مصیبت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
ایک طرف تہذیب، ترقی، دولت کی ریل پیل، اسلحہ کے انبار، اکتالیس ممالک کی فوج اور امریکہ، اسرائیل کی چھتری تلے آل سعود کے عیاش حکمرانوں کے چہروں پر شکست کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف پا برہنگی، حمیت، غیرت، جرائت، استقامت، اتحاد و وحدت، اپنی سرزمین اور اپنے اصولوں سے عشق و محبت، کو فتح کا نقارہ بجاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اہل یمن فتح مند ہیں
قصے کا آغاز وہاں سے ہؤا جہاں صہیونی ذرائع نے بولنا شروع کیا کہ نیتن یاہو کا وکیل اٹارنی جنرل کے دفتر کے ساتھ ایک سودے بازی کر رہا ہے اور وہ یہ کہ عدلیہ اس کے خلاف دائر مقدمات اور کیسز کا خاتمہ کرے اور اس کے بدلے نیتن یاہو سیاسی میدان ترک کرے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔