اسرائیلی وزیر خارجہ نے امریکی اور سعودی حکام کی طرح گزشتہ روز ابوظہبی کے خلاف صنعا کی کامیاب کاروائی کی شدید مذمت کی۔
اب امریکہ اپنے آپ کو ثالثی کرانے والے ملک کے طور پر پیش نہیں کر سکتا اور نہ ہی خود کو صلح کے پرچم دار کے طور پر پیش کر سکتا ہے جو آپس میں دست بگریباں دو حریفوں کے درمیان امن و امان قائم کرنا چاہتا ہو اس لئے کہ وہ خود لڑائی کا ایک فریق بن چکا ہے۔
یہ زوال کی طرف رواں دواں، راندہ درگاہ، غاصب صہیونی ریاست کے زوال پذیر اور نامناسب وزیر اعظم جو ایک نامناسب وقت میں اس ریاست کی وزارت عظمی تک پہنچا ہؤا ہے، کا عجیب و غریب بیان ہے۔ اس نے یہ الفاظ ایران پر لگی امریکی پابندیاں ہٹانے کے لئے ہونے والے ویانا مذاکرات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ادا کئے ہیں۔
صہیونی یہودیوں نے اسرائیل کی تشکیل کے حق میں ووٹ لینے کے لیے دوسرے ممالک کو مختلف حربوں سے رضامند کیا جن میں زیادہ تر حربے اقتصادی اور سیاسی تھے۔
صہیونی ریاست کی اندرونی سلامتی کے ادارے نے امریکہ میں یہودیوں پر ہونے والے حملوں میں شدت آنے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ ادھر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی یہودی اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔
نفتالی بینیٹ نے ٹائمز میگزین کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: "ایران یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت کے اعلی ترین مرحلے پر پہنچ گیا ہے۔ ایران 30 برسوں سے ہمارے آس پاس آ کر تعینات ہو چکا ہے اور وہ ہماری توجہات کو ہٹانا اور ہمیں بوکھلاہٹ سے دوچار کرنا چاہتا ہے"۔
سابق صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا: "ایران اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم [اسرائیلی] کمزور ہیں اسی لئے مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم نفتالی بینیٹ اسرائیل کی ترقی کے بارے میں شیخیاں بگھارتا ہے؛ وہ جدید زمانے کے سب سے بڑے چوروں میں سے ایک ہے۔ ایران تمہاری [یعنی نفتالی کی] کمزوریوں سے واقف ہے"۔
آج ہم صہیونیوں کو چیختا چلاتا دیکھ رہے ہیں مگر چیخنا چلانا ہمیشہ طاقت کے اظہار کی علامت نہیں ہے؛ کونسی چلاہٹ ڈوبتے ہوئے شخص کی چیخ و پکار سے زیادہ روح فرسا ہوسکتی ہے؟ لیکن کیا کوئی اس چیخ و پکار کو ہمت و جرات کی علامت سمجھے گا؟
یزید نے سیدالشہداء (علیہ السلام) کی زندگی کا چراغ گل کرکے طاغوت کی حکمرانی کے بچاؤ کا انتظام کیا مگر امام نے موت کے اس بیوپاری کو تا ابد ناکام بنایا، اور یزید کی موت سفیانی سلسلۂ سلطنت کی موت ثابت ہوئی؛ اس شہادت عظمیٰ نے سلسلۂ ستم کی جڑیں اکھاڑ دیں، اور اس کے بعد آج تک جہاں بھی ستم نے سر اٹھایا ہے عاشورا کے امینوں نے اس کا سکون چھین لیا ہے۔