بائیڈن انتظامیہ ایران پر حقیقی دباؤ نہیں ڈال سکی ہے اور اسی مسئلے نے ویانا مذاکرات میں امریکہ کو تعطل اور رکاوٹوں سے دوچار کیا ہے۔
جب امریکہ ظلم اور زیادتی میں اپنے آپ کو کسی سرحد کا پابند نہیں جانتا تو اس کے خلاف ردعمل کیسے سرحدوں میں مقید کیا جا سکتا ہے۔ کیا انسانیت کو سرحدوں کا پابند بنایا جاسکتا ہے؟
اگر کسی کو یہ وہم تھا بھی کہ یہ قوانین اور امریکی ورلڈ آرڈر - وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے سوا کسی اور شخص کے کرسی صدارت پر براجماں ہونے کی صورت میں - دوبارہ بحال ہوسکتا ہے، تو اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ سنہ 2021ع ایسا سال تھا جس میں مغرب کی طرف سے کسی بھی مسلط قانون کی عدم موجودگی بالکل واضح ہوگئی اور روس، چین اور ایران اس حقیقت پر متفق ہیں۔
ناخواندہ ہندوستانیوں کو کلینیکی تجربات سے متعلق رضامندی فارم کے مندرجات سے آگاہ نہیں کیا جاتا / بیرون ملکی طبی تحقیقات کی نگرانی میں امریکی محکمہ خوراک وادویات کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے/ امریکی کمپنیاں بھارتی ڈاکٹروں کو بڑی رقوم بطور رشوت دیتی ہیں اور اپنی دولت بڑھانے کے لئے غریب ہندوستانی عوام کا استحصال کرتی ہیں۔
ہمیں مستقبل قریب میں خطے کی سطح پر دہشت گردانہ اقدامات، تخریب کاری اور بغاوتوں میں بڑھاوے کا منتظر رہنا چاہئے۔ اسی طرح دیگر پراسرار اقدامات جو برطانیہ کی خاص مہارتوں میں شامل ہیں۔ خطے کے مختلف ممالک میں وسیع تعداد میں برطانیہ کے تربیت یافتہ ایجنٹس اور جاسوس سرگرم عمل ہو چکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیوں کے نتائج ظاہر ہوتے رہے ہیں گے۔
امریکہ پر واجب الاداء قرضہ اس ملک کی مجموعی ملکی پیداوار یا خام ملکی پیداوار (Gross Domestic Product) سے کہیں زیادہ ہے لہذا وہ جتنی بھی تیز رفتاری سے ان قرضوں کو ادا کرے، یا ادائیگی کبھی بھی ممکن نہيں ہوگی۔
امریکہ کا سالانہ فوجی بجٹ بھی ۶۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اس کے بیرون ملک ۱۰۰۰ فوجی اڈے ہیں، چنانچہ وہ اپنی فوجی مشین کی افادیت پر بہت شادماں اور مطمئن ہے، لیکن اس فوجی مشین کی نااہلیت جلدی یا بدیر ثابت ہوجائے گی اور امریکہ کے بیرونی حامی اور اندرونی غفلت زدہ لوگ جان لیں گے کہ یہ سب امریکہ کی تشہیری مہم تھی۔
امریکہ کے اندر کے حکمران اور امریکہ کے باہر کے لبرل ازم اور معاشی آزاد مشربی سے متاثر سوچوں کے مالک لوگ ـ بالخصوص لبرل ازم کو بطور فیشن اپنانے والے مسلم دنیا کے مقتدر بھنئے یا منفعل سیاستدان ـ جو امریکی زوال کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں، کہتے ہیں کہ اعداد و شمار جعلی ہیں اور امریکہ خود ہی ایسی معلومات دنیا کو دے رہا ہے تا کہ اس کے حریفوں کو معاشی نقصان پہنچا سکے۔
نو لیبرالیت (Neoliberalism) ایک “عسکری شدہ” اوزار ہے، جس کو ـ حکمران اشرافیہ اپنے کنٹرول کے تحفظ کے لئے، معاشرے کو پارہ پارہ اور منتشر کرنے اور لوٹ مار نیز معاشرتی عدم مساوات کی رفتار تیز کرنے کے لئے ـ استعمال کررہی ہے۔ حکمران آئیڈیالوجی ـ جو مزید کسی طور بھی معتبر نہیں ہے ـ اپنی جگہ فسطائیت اور عسکری استبدادیت کو دے دیتی ہے۔