اب سوال یہ ہے کہ کیا واسکو داگاما اتفاقی طور پر اس تجارتی مرکز سے ٹکرا گیا اور اس جگہ سے اسکی کوئی قبلی آشنائی نہ تھی یا پھر اس نے منصوبہ بند طریقے سے اس علاقے کا رخ کیا ۔ اس سلسلہ سے اس فرد کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ بات ایقان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ گاما نے حادثاتی طور پر ہرگز اس جگہ کا انتخاب نہیں کیا تھا ۔
یہ تمام عوامل اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے فیصلہ سازاہم اداروں میں صہیونی لابی کسی قدر نفوذ رکھتی ہے!۔ در حقیقت صہیونیوں نے امریکہ کو یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور اس درمیان یہ امریکی عوام تھے جنہوں نے اپنے حکمرانوں کے اس غلط تصمیم کا تاوان ادا کیا۔
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ پیریز نے اس منصوبے کے اصولوں کو "آیالون منصوبے" (Ayalon Plan) سے مستعار لیا ہے اور اس نے اس منصوبے پر عملدرآمد کو "عرب ریاستوں" کے سرمائے اور "صیہونی ذہانت" کے درمیان "اتحاد و یگانگت!" کی ایک علامت گردانا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس سے اسرائیل کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔
درحقیقت، آکساگون شہر صاف ستھری اور جدید صنعت کا مرکز بننے کی کوشش کر رہا ہے، اور وہ یوں کہ شہر میں ہونے والی تمام سرگرمیاں صاف توانائی (Clean energy) اور زیرو کاربن کے اخراج کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام پائیں۔
عظیم تر مشرق وسطیٰ کے منصوبے میں طے یہ تھا کہ عرب ریاستوں، ترکی، ایران، پاکستان، قفقاز کے مسلم ممالک اور اسرائیلی ریاست کو ایک آزاد معاشی نظام پر مبنی بلاک میں تبدیل کیا جائے اور اس کا مرکزی کردار اسرائیل کے ہاتھ میں ہو۔
جو منصوبہ شمعون پیریز نے غزہ کے بارے میں پیش کیا ہے جو ہمیں ابو دیس کی یاد دلاتا ہے جس کا نام قدس کے متبادل کے طور پر [فلسطینی دارالحکومت کے طور پر] پیش کیا گیا۔
صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں شمعون پیریز پروجیکٹ اور محمد بن سلمان اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے درمیان واضح مماثلت واضح ہوجانے کے بعد، عرب ممالک کی رائے عامہ زمانہ حال اور مستقبل قریب میں صہیونی ریاست کے ساتھ "تعلقات معمول لانے کے عمل" کے مرکزی نقاط (Pivots) کے آثار و تفصیلات کو دیکھ سکتی ہے۔
سعودی عرب نے حال ہی میں بحیرہ احمر کے ساحل پر 500 ارب ڈالر کی لاگت سے نیوم (Neom) نامی جدید شہر تعمیر کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور اسے اپنے اقتصادی وسائل کو بڑھانے کے لئے ایک بہت بڑا، قوم پرستانہ منصوبہ قرار دیا ہے۔
یہاں عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے شمعون پیریز کے تجویز کردہ متعدد منصوبوں اور خطے میں موجودہ تبدیلیوں کے ساتھ اس نقطہ نظر کے تعلق کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔