اگر ہم قبول کریں کہ گذشتہ چالیس برسوں کے اہم ترین عالمی تنازعہ کو انقلاب اسلامی اور امریکہ کے درمیان تھا تو دنیا کو بھی، مغربی ایشیا کو بھی، ملت ایران کو بھی اور ولائی مسلمانوں کو بھی ایک نہایت خوبصورت اور روشن افق نظر آئے گا۔ اس قابل مطالعہ موضوع کی بنیاد پر، دنیا میں امریکہ کا انحطاط و زوال قطعی اور حتمی اور الہی اقدار کی قیادت میں، انسانی فطرت کے عین مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح کی نو ظہور قوتوں کا معرض وجود میں آنا ایک زمینی حقیقت ہے۔
امریکہ کے اہداف و مقاصد میں ماضی کی نسبت کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور جو چیز تبدیل ہوتی آئی ہے وہ ان تسلط پسندانہ اہداف کے حصول کیلئے بروئے کار لائے جانے والے ہتھکنڈے ہیں۔
اس وقت سے لے کر آج تک مسلمانوں کے درمیان ایک ہی معاملہ بار بار دہرایا جاتا ہے یعنی فلسطینیوں کی سخت مزاحمت، عربوں کی بھرپور حمایت اور باقی مسلمانوں کی زبردست تائید کے باوجود فلسطین کا مسئلہ جوں کے توں اپنی جگہ قائم ہے جبکہ اسکے برعکس فلسطین میں یہودی علاقوں اور آبادکاروں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے
جودی ہود (Judy Hood) کا کہنا تھا کہ اگرچہ یمن میں سعودی کاروائیوں کا خاتمہ اور یمن سے سعودیوں کا انخلاء، جنگ کے خاتمے میں مدد دے گا اور اس کے باوجود کہ اس تجویز کو قبول کرنا دشوار ہے مگر ہمارا [امریکہ کا] خیال ہے کہ یہی اقدام صحیح ہے۔ اب جو انصار اللہ پسپا نہیں ہورہی تو سعودی عرب جنگ کے خاتمے کا انتظام کرے
سینٹ کام دہشت گردوں کے کابل ایئرپورٹ سے فرار کے بعد خطے میں امریکیوں کا تزویراتی ضعف عیاں ہو چکا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے آج لکھا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان سائبر جنگ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک نئے تنازع کا آغاز ہو سکتی ہے۔
معاشی تعلقات سے اسرائیل کا بنیادی مقصد ـ مختلف ممالک میں سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ بڑھانے کے علاوہ ـ ان ممالک کی معیشت کی مکمل تباہی اور انہیں مختلف شعبوں میں بیرونی وسائل سے وابستہ کرکے تنہا کرنا اور خطے میں اپنے اصلی دشمن “ایران” کا اثر و رسوخ کم کرنا ہے۔
میرے خیال میں اسرائیل کا یہ اقدام اس کے لئے بہت سارے آثار اور خطرناک عواقب کا باعث بنے گا۔ اس کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ خطرناک اثر اسرائیل کی اپنی پوزیشن، اور یورپ و امریکہ میں اسرائیل کے حوالے سے رائے عامہ پر مرتب ہوگا۔
صہیونی دشمن خطے میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کی فوجی طاقت میں اضافے سے شدید وحشت کا شکار ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک علاقائی جنگ شروع ہونے کی صورت میں مقبوضہ فلسطین کی فضا ہزاروں میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے بھر جائے گی جو شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک ہر نقطے کو نشانہ بنائیں گے