حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اسلحہ کا رواج، بے روزگاری اور مہنگائی، غیر مناسب تعلیمی نظام، صحیح قوانین کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ وہ اسباب و عوامل ہیں جو باعث بنتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں جرائم دن بدن بڑھتے جائیں اور جیلیں بھرتی جائیں۔
اگر آپ بینکنگ سسٹم پر غور کریں کہ وہ کیسے وجود میں آیا؟ اور اس کے وجود میں لانے والے کون تھے؟ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام میں انسانوں کو کس طرح بیوقوف بنا کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
بعض اوقات، سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے حکمران طبقے کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لئے بھی اسلحہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک ہھتیاروں کی کثیر تعداد میں پیداوار کر کے تیسری دنیا میں اسے فروخت کرنے کے لیے پہلے جنگیں چھیڑتے ہیں ایک ملک کو دوسرے ملک سے لڑاتے ہیں اور پھر انہیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔
اگرچہ حال میں امریکہ یہ کوشش رہا ہے کہ بہت سارے وفاقی قوانین اور جرمانوں میں اصلاح کرے لیکن پھر بھی اس ملک میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو کبھی حکومت کی طرف سے تشدد اور سزا کے مستحق واقع نہ ہوئے ہوں اور جیل کا انہوں نے منہ دیکھا ہو۔
ایسے حال میں کہ آج استعماری حاکمیت کے دور سے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی بھی ہندوستان کی رگوں میں سامراجیت کا خون دوڑ رہا ہے بظاہر تو ہندوستانی سیاسی پارٹیاں بھارتی ہونے کے نام پر جمہوریت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں اور لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ریاستی حکومت تشکیل دیتی ہیں لیکن باطن میں ابھی بھی سامراجی فکر، سامراجی سوچ، سامراجی پالیسیوں اور قوانین پر عمل ہو رہا ہے۔
’ خدا کے نزدیک شادی سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے‘۔ لہذا دین اسلام کے بزرگ اس گھر کو بہترین گھر جانتے تھے جس میں شادی کی رسم انجام پائے۔
یہودی ریاست نے اقتصادی لحاظ سے اتنی ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی اندرونی آمدنی ہر پانچ سال بعد دو گنا ہوجاتی تھی۔ صورت حال اچھی تھی حتی کہ بیسویں صدی کی معاشی مندی اور پڑوسیوں کے ساتھ متواتر جنگوں نے یہودی ریاست پر بھاری معاشی بوجھ ڈال دیا اور یہودی حکومت کو 12 ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
عصر حاضر کے قارون اور فرعون در حقیقت خدا سے مقابلہ کرنے کے لیے معیشی امور میں جس چیز سے کھلے عام فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ہے ’’ربا اور سود‘‘۔ انہوں نے معیشتی امور میں جس نظام کو سماج میں رائج کیا ہے وہ ہے ’’بینکی نظام‘‘۔
قرآن کریم دراصل کتاب توحید ہے کتاب معرفت پروردگار ہے، جو انبیاء کی دعوت کے ڈھانچے میں بیان ہوئی ہے البتہ معاد اور قیامت پر عقیدہ جو انبیاء کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے بھی قرآن کے بیشتر حصے کو تشکیل دیتا ہے۔