یہ وہ ممالک تھے جن کے ساتھ اگر "طوفان الاقصیٰ" آپریشن نہ ہوا ہوتا تو وہ کئی مہینے پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو مکمل کر چکے ہوتے
جنگ بندی پر منتہی ہونے والی یہ کامیابی صرف حماس کی نہیں تھی بلکہ ایران، لبنان، یمن اور عراق کی بھی تھیں، جو 15 ماہ تک فلسطینی مزاحمت کے شانہ بشانہ غزہ کی پٹی میں نتانیاہو کے عزائم کے خلاف کھڑے رہے۔
فلسطینیوں کی لاشوں کو پگھلانے اور بخارات بنانے کا انسانیت سوز جرم صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کی پٹی میں امریکی بموں سے انسانیت کے خلاف جرائم میں سے ایک ہے۔
صیہونی رژیم کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں نے جیل میں تشدد، جنسی زیادتی، کھانے پینے اور علاج سے محرومی کی تلخ داستانیں بیان کی ہیں۔
ایران ٹرمپ کے کھیل اور اس کی تصویر سازیوں سے بخوبی واقف ہے اور وہ اسے اور امریکی حکومت کو حقیقت کے طور پر دیکھتا ہے۔ آج امریکہ مختلف چھوٹے اور بڑے مسائل میں الجھا ہوا ہے؛ اس کا سخت حریف چین اور روس ہے اور یورپ کے ساتھ بھی چیلنجز کا سامنا کرے گا۔
صہیونی حکومت نے آخر کار 15 ماہ کی بھاری اقتصادی قیمت ادا کرنے کے بعد نیزغزہ میں جنگ کے مقاصد میں ناکامی کے بعد جنگ بندی قبول کر لی۔
صیہونی ریاست، جس نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران داخلی اور خارجی چیلنجوں کے جائزے اور ان سے نمٹنے کے طریقے کے لیے خاص اور عام طور پر مستحکم حکمت عملی اور ترجیحات مرتب کی تھیں، 2025 میں جنگ کے نتائج کے سائے میں خود کو پیچیدہ اور ناقابل حل چیلنجوں کے درمیان پاتی ہے۔
صہیونی ریاست میں یہ باور پایا جاتا ہے کہ مختصر جنگوں کا دور ختم ہو چکا ہے اور اب اسرائیلی فوج کو طویل جنگوں کے دور میں داخل ہونے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
آنے والے سالوں میں، تمام واقعات اور افواہوں کے باوجود، جو کہ پورے خطے کے "اسرائیل کے دور" میں داخل ہونے اور ٹرمپ کی دوسری صدارت کے خوف و ہراس کے بارے میں ہیں، مستقبل بلا شک و شبہ خطے کے آزاد اور معزز لوگوں اور ان کی قابل اور مضبوط مزاحمت کا ہے۔