مغربی نظام میں استحکام کا محور و مداد، فرسودہ بادشاہی نظام ہے جس کا کوئی عقلی اور منطقی جواز نہیں ہے اور صرف خون اور وراثت اس کی بنیاد ہے۔ لیکن اسلام کی دینی فکر میں "عدالت اور فقاہت" ہے، دو ایسی شرطیں جو علم اور صداقت کو مد نظر رکھتی ہیں۔
امر مقدس مَرا نہیں ہے اور مشرقی مقدس مآبی پر مغربی نکتہ چینی بھی اس لئے ہے کہ وہ دین کی وحدت آفریں اور بیدار ساز جہتوں پر ضرب لگانے کے درپے ہے ورنہ تو حالیہ چند دنوں میں ملکہ برطانیہ کی مدح و ثناء کہاں اور اتنے سارے طویل المدت سیکولر دعوے اور نعرے اور مشرقی افکار پر تنقید کہاں؟
رولی لعل نے کہا: 11 ستمبر کے واقعے میں 3000 امریکیوں کی ہلاکت بہت سوں کے لئے ناقابل یقین تھی۔ اس واقعے نے ثابت کیا کہ امریکی فوجی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی ناقص اور اس کے اندازے غلط تھے۔ امریکی اچانک مسلمانوں اور مسلمانوں سے شباہت رکھنے والوں پر بدظن ہو گئے۔ جس کی وجہ سے سکھوں پر بہت سارے حملے ہوئے جو جو سر پر دستار رکھتے تھے، نیز مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے غیر محفوظ ہو گئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ سے بازیاب ہونے والی اہم دستاویزات کا مسئلہ امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی معمولی جھگڑا نہیں ہے بلکہ امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں اور تاجر پیشہ سیاست دان کے درمیان بھرپور جنگ ہے۔
امریکہ جن ملکوں کو تنہا کرنے چلا تھا، وہ آج بھی مستحکم ہیں، کویت نے چھ سال بعد ایران سے سفارتی تعلقات بحال کر لئے ہیں۔ عراق اور شام بھی ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ روس کیساتھ بھی ایران کے تعلقات مضبوط ہیں اور چین بھی اس ساری صورتحال میں اہم کھلاڑی ہے۔
الزبتھ اول کا دور (۱۶۰۳-۱۵۵۸) برطانوی نوآبادی سلطنت کی شروعات تھی۔ اسی دور میں سلطنتی خاندان نے مغرب میں ’غلاموں‘ کا تجارت کا کاروبار شروع کیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب یہودیوں نے برطانوی دربار میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ملکہ سے خود کو اتنا نزدیک کیا کہ وہ عبری زبان سیکھنے کی شوقین ہو گئی۔
فلسطین امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے، کیونکہ فلسطینی دھڑوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ غاصب صیہونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔
یائیر لاپیڈ نے ایسے حال میں وزارت عظمیٰ کا موقع حاصل کیا ہے کہ صہیونی ریاست کو پیچیدہ حقائق کا سامنا ہے۔ مقبوضہ سرزمینوں میں سیاسی اور معاشی کامیابیوں کو بڑھتے ہوئے آبادیاتی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو بائیڈن خطے اور دنیا میں امن و استحکام کی خاطر سرگرم عمل نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد پراکسی جنگوں اور دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے سکیورٹی بحران ایجاد کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں موجود قدرتی ذخائر کی لوٹ مار اور اپنا فوجی اور سیاسی اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔