نبی کریم (ص) کی شان میں ایسی گستاخی نہ صرف ایک بہت بڑا اخلاقی جرم ہے بلکہ انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے جس سے نہ صرف ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے قلوب مجروح ہوئے ہیں بلکہ ہر وہ دل زخمی ہوا ہے جس میں اس پیکر علم و اخلاق سے عقیدت و محبت پائی جاتی ہے۔ ہم طلاب حوزہ علمیہ قم اس حالیہ منصوبہ بند توہین آمیز اقدام کے خلاف اپنا احتجاج درج کرواتے ہیں۔
دشمن نے ایک لائحۂ عمل بنایا ہے۔ آر ایس ایس کے بارے میں ایک صحافی نے کہا کہ ان افراد نے مسلمانوں کے لئے تین مراحل رکھے ہیں: پہلا مرحلہ مسلمانوں کو دوسروں سے الگ کرنا اور ان کو یہ احساس دلانا کہ ہم کو تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اس سے ۸۰ فیصد ہندوؤں میں یکجہتی پیدا ہوگی۔ دوسرا مرحلہ مسلمانوں کا معیشتی اور سماجی بائیکاٹ کرنا ہے اور تیسرا مرحلہ انعام دیا جانا ہے۔
اب بھی پولیس نے سردیاں شروع ہونے سے پہلے کشمیری عوام پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے مذکورہ 4 کشمیریوں کو شہید کر دیا ہے، جو بیگناہ تھے، ایک ڈاکٹر تھا، دوسرا کلینک پر ملازمت کرتا تھا، ایک دکاندار تھا، چوتھے کو پاکستانی قرار دیدیا گیا۔ آخر بھارت سرکار کب تک جھوٹ کا سہارا لے کر بے گناہ کشمیریوں کو موت کی وادی میں دھکیلتی رہے گی؟؟
ہندوستان میں سیاسی روّیے اور سماجی قدریں تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہی ہیں ۔اس برقی تبدیلی پر ملت کے دانشوروں اور قوم کے رہنمائوں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر شکاری کے آنے کا انتظار نہیں کرسکتے ۔
جو طاقتیں وسیم رضوی کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور اس سے کام لے رہی ہیں سب کے سب مذمت کے لائق اور مجرم ہیں جنہیں ہوش کے ناخن لینا چاہیے، البتہ یہ معاملہ عین اس موقع پر سامنے آیا جب اترپردیش کا الیکشن قریب ہے وسیم رضوی کا نہ علمی حلقہ سے کبھی متعلق رہاہے نہ اسکی کوئی سماجی حثیت ہے جسے کوئی اہمیت دی جائے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے یہ ہمارا ملک ہے ہم اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کچھ سر پھرے اس وطن کی عزت و آبرو سے کھیلنا چاہیں تو ہمیں انکا مقابلہ کرنا ہوگا ، یہ جو تریپورہ میں مساجد جلائی گئیں ہیں یہ محض مسجدیں نہیں تھیں جنہیں نذر آتش کیا گیا ہے بلکہ ہندوستان کی جمہوریت کو آگ لگانے کی کوشش کی ہے۔
ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم سب کو اپنے ملک کی خاطر اپنے وطن کی خاطر اپنے قومی تشخص کی خاطر دین کے تعلیمات کی خاطر اٹھنا ہوگا اور پر امن طریقے سے اپنا احتجاج درج کرانا ہوگا ،اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ہوگا توحید کے پرچم تلے جمع ہوکر شان رسالت میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف منظم مہم چلانی ہوگی ورنہ ہمارا یہی حال ہوتا رہے گا۔
برصغیر کا خطہ بے شمار قدرتی وسائل سے مملو ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ معیشتی ترقی اور اقتصادی پیشرفت کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ بات اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ برطانوی سامراجیت کی طاقت و ثروت کو اس علاقے پر اس کے غاصبانہ تسلط سے ربط دیا جا سکتا ہے۔۔
بر سر اقتدار جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت کی زمام ہمیشہ کسی ایک کے ہاتھوں میں نہیں رہتی ۔وقت بدلتاہے ۔حالات پلٹا کھاتے ہیں ۔حکومتیں گردش زمانہ کی نذر ہوجاتی ہیں ۔مستقبل میں سیاست کی زمام کس کے ہاتھوں میں ہو یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے بہتر ہوگا کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ۔اقلیتی طبقے کو ہراساں کرنا اور ان کے جوانوں کو فرضی معاملات میں گرفتار کرنا بند کیا جائے ۔مسلمان اس ملک کے عزت دار شہری ہیں ۔اور یہ حق ان سے کوئی تنظیم اور حکومت نہیں چھین سکتی ۔ہاں کچھ وقت کے لیے انہیں کمزور اور خوف زدہ ضرور کیا جاسکتاہے ۔اور بس!