مولانا سید ذاکر حسین جعفری نے کہا: کرناٹک ہائي کورٹ کا فیصلہ در حقیقت اسلامی اور قرآنی احکام پر حملہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے بنیادی آئين پر بھی مہلک حملہ ہے۔ کرناٹک ہائي کورٹ کا فیصلہ انسانی آزادی پر بھی حملہ ہے۔
ہم کشمیر فایلز کی ٹیم سے اس بات پر قطعی نالاں نہیں ہیں کہ انہوں نے کشمیری پنڈتوں کے درد اور ان پر ہوئے تشدد کو اسکرین پر کیوں پیش کیا۔ہرگز نہیں ! ظلم بہر حال ظلم ہے ،خواہ وہ کسی بھی مذہب اور ذات کے لوگوں پر ہوا ہو۔کشمیری پنڈتوں کے درد کا احساس کوئی دوسرا ہرگز نہیں کرسکتا کیونکہ دوسروں نے اس درد کو جھیلا نہیں ہے
ہندوستان و اسرائیل کے باہمی تعلقات روز بروز بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے زمانے میں دونوں طرف ثقافتی، تعلیمی، سکیورٹی و سلامتی، علمی و دیگر میدانوں میں تعاون کو بے حد فروغ ملا ہے اور انکے درمیان ایک ایسا تعلق استوار ہوئے جسمیں جدائی و شگاف بہت ہی مشکل ہے
ہندوستان میں کمزور ہوتی ہوئی جمہوریت اور حزب اختلاف کے ختم ہوتے ہوئے وجود کے پس پردہ الیکشن کمیشن کی جانبدارانہ ذہنیت ہے ،جس کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر لایحۂ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔اگر تمام احزاب مخالف الیکشن کمیشن کے خلاف متحد نہیں ہوں گے،تو انہیں اسی طرح پے درپے شکست کا سامنا کرتےرہنا ہوگا۔
کیا یہ تہذیب ہمارے لئے لائق تقلید ہے جس میں ماں باپ کے لئے گھر میں کوئی جگہ نہ ہو ، جہاں گھر چھوٹے ہو جائیں اور ماں باپ کو اولڈ ہاووس میں چھوڑ کر بچے سوچیں کہ سر کا بوجھ اتر گیا ٹکیا یہ ایسی تہذیب ہے جس کے بارے میں ہم بات تک کرنے کے روادار ہوں ؟
حجۃ الاسلام سید ذاکر حسین جعفری نے کہا کہ ہندوستان میں بعض انتہا پسند اور شدت پسند ہندو تنظیمیں ہندو ازم کی آڑ میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے اور انھیں پریشان و ہراساں کرنے کی سر توڑ کوشش کررہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور ان تمام مشکلات کے درمیان گھرے رہنے کے باوجود جو ہمیں لاحق ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں ۔ یہاں پر ہم سب کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے ماضی پر ایک نظر ڈالیں سب سے پہلے ہمیں اپنی تاریخ سے واقفیت کی ضرورت ہے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے ہم نے کیا خدمات کی ہیں وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جو اپنی تاریخ کو فراموش کر دیتی ہیں۔
پردہ اسلامی تشخص ہے ۔اس تشخص کو ختم کرنے کی منصوبہ سازی کی جارہی ہے ۔کیونکہ فاشسٹ طاقتیں مسلمانوں کو ان کے مذہی کلچر کے ساتھ قبول نہیں کرنا چاہتیں ۔کیونکہ جب کسی قوم کا تشخص ختم ہوجاتاہے تو اس کی حیثیت بھی مشکوک ہو کررہ جاتی ہے ۔
ملک کے بدلتے ہوئے ان حالات میں ہمیں اپنا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات میں ہم کس قدر ملک کے حالات کے تئیں حساس ہیں اپنی قوم کی تعمیر کو لیکر ہمارے وجود کے اندر ایک امنگ پائی جاتی ہے ۔ اگر ہم ملک و قوم کے تئیں ہمدردی رکھتے ہیں تو یقینا ملک کے سیاسی منظر نامے پر جو کچھ چل رہا ہے اس سے غافل نہیں ہونگے ۔