"مزاحمت کی پہلی صف کے خواہ تمام کمانڈرز شہید ہو جائیں، مزاحمت کبھی نہیں رکے گی۔" کمانڈروں کے اسباق اور تعلیمات ہمیشہ قائم رہیں گے اور نسلیں اس طرف چلتی رہیں گی اور مزاحمت کا بلاک اسرائیل اور امت اسلامیہ کے دشمنوں کی گردن پر تلوار کی مانند لٹکتا رہے گا اور ان شاء اللہ یہ کبھی ناکام نہیں ہوگا۔
امریکہ کی تحریر الشام کے حوالے سے دوہری پالیسی نے ماہرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ امریکہ نے اس گروپ کو اپنی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، لیکن اس کے سابقہ حکام نے تحریر الشام کو "امریکہ کا اثاثہ" قرار دیا ہے۔
غزہ کی پٹی میں ہولناک درجے کی تباہی پھیلی ہے جہاں شہریوں کو بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے امداد کی اشد ضرورت ہے جبکہ علاقے میں بڑے پیمانے پر قحط پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کی اپنی پیچیدگیاں ہیں اور اس وقت بات ہو رہی ہے کہ 20 جنوری سے قبل غزہ میں جنگ بندی قائم ہو جائے گی اور مسٹر ٹرمپ کی آمد کے بعد مجھے کوئی یقینی بات نظر نہیں آتی۔
شام میں پیش رفت کے بارے میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا: "شام کے معاملے اور بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے، حیرت انگیز بات یہ تھی کہ شامی فوج مسلح گروہوں کا مقابلہ کرنے میں بالکل ناکام رہی، اور دوسری بات، پیش رفت کی رفتار، جو غیر متوقع تھی۔
غزہ پر غاصب ریاست کی یلغار 276 دنوں سے جاری اور اس جارحیت کا دسواں مہینہ شروع ہوچکا ہے؛ اس عرصے سے غزاویوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ، غزہ کی معیشت بھی غاصب ریاست کے جنگی جرائم اور صنعتی اور معاشی مراکز اور بنیادی ڈھانچوں کی وسیع پیمانے پر ارادی تباہ کاری کا شکار ہے۔
یقینا اگر اسلامی اتحاد کے ہدف کو حاصل کر سکے ہوتے تو اپنی دولت اپنے ملکوں اور علاقے کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرتے، اور اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس مرحلے تک پہنچے ہوتے تو کیا ہوتا؟ مغربیوں اور ان کی آمدنیوں کا کیا بنتا؟ اور وہ جو اپنی بقاء کے لئے جنگوں کے محتاج ہیں، تو ان کی بقاء کی ضمانت کیونکر دی جاسکتی تھی؟
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاک ایران سرحدی علاقہ غیر مستحکم صورتحال سے دوچار ہے بلکہ ماضی میں بھی اسے تناؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی کے چند واقعات کا خلاصہ، جن کی وجہ سے دونوں برادر ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا: حالیہ چھ ہفتوں کے دوران امریکہ سے ـ بالخصوص تہران میں سوئس سفارتخانے کے ذریعے ـ متعدد پیغامات موصول ہوئے ہیں / وہ 2006 ميں حزب اللہ کا خاتمہ چاہتے تھے لیکن آج حزب اللہ کو جنگ کے پھیلاؤ کا سد باب کرنے کے لئے پیغامات ارسال کر رہے ہیں۔