اپتھیکر نے اسرائیلی نظام حکومت اور اس کی پالیسیوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کوشش کی ہے کہ UCSC یونیورسٹی کی فضا کو اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں تبدیل کر دیں۔
ریڈیکل فلاسفی ایسوسی ایشن ‘کیوبا’ کی کمیونیسٹ حکومت کی حمایت جبکہ ریاست ہائے متحدہ کی جانب سے اسرائیل کو حاصل اقتصادی اور عسکری امداد کی مخالفت کرتی ہے اس لیے کہ ان امدادوں سے “مسلمان اقوام کی دشمنی” کی حمایت کا نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔
پروفیسر گِل اینیجر جب کلاس روم میں صہیونیت کی بات کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ “جو بحث میں چھیڑنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ «بہت ضروری ہے کہ صہیونیت کی استعماریت اور بالخصوص لفظ “استعمار” پر تاکید کروں۔ اسرائیل مکمل طور پر ایک استعماری تنظیم اور ایک استعماری ریاست ہے جو قائم ہوچکی ہے”۔
پروفیسر اینڈرسن نے ’دھشتگردی کے خلاف جنگ‘ کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ یہ صرف امریکہ کے پاس ایک بہانہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دوسرے ملکوں پر چڑھائی کرے ورنہ امریکہ خود ایک دھشتگرد ملک ہے
پروفیسر آسٹن نے جس نظریئے کی وضاحت کی وہ ان تحقیقات کے ڈھانچے کی مشترکہ خصوصیت ہے جس کو تنقیدی نسلی نظریئے کے مطالعے کے طور درجہ بند کیا ہے اور وہ عرصہ دراز سے اس کی ترویج کر رہی ہیں۔ پروفیسر آسٹن نے وضاحت کی کہ "میں سنجیدگی سے اس ڈھانچے کی بنیاد کے طور پر، ثقافت پر زور دیتا ہوں، تا کہ آپ کے اختیارات اسی ثقافت کے اندر سے اگ کر پروان چڑھیں، نہ اس کے باہر سے"۔ قانون پر ثقافت کی بالادستی اور تقدم پر پروفیسر آسٹن کا اصرار اتنا شدید ہے کہ وہ دعوی کرتی ہیں کہ اقلیتی برادریوں کو قانونی اختیارات کے متبادل ذرائع کی ضرورت ہے۔
محمد شاہد عالَم (Professor M. Shahid Alam) نے کاؤنٹر پنچ نامی دو ماہی رسالے میں اپنے دعوے کی یوں وکالت کی: “ممکن ہے کہ امریکیوں نے اپنی جنگ آزادی میں عام شہریوں کو نشانہ نہ بنایا ہو لیکن وہ جرائم کے مرتکب ضرور ہوئے اور عام اور نہتے شہریوں کو ضمنی طور پر نقصان پہنچایا”۔
پروفیسر ڈوہرن نے اپنے اعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا: "ہم نے جنگ کا بھی مقابلہ کیا اور نسل پرستی کا بھی؛ نیز ہم نے یہ بھی سیکھا کہ صرف امریکہ میں کچھ افراد کی زندگی ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ تمام انسانوں کی زندگی ایک سطح پر قابل قدر اور اہم ہے"۔
اس مولف کے علمی کارناموں میں “ہولوکاسٹ انڈسٹری” (The Holocaust Industry) معروف ترین اور اہم ترین علمی کارنامہ ہے۔ فینکلشٹائن اس کتاب میں ہولوکاسٹ کے موضوع پر اپنی تحقیق کے مقصد کو بیان کرتے ہیں اور یہودی نسل کشی کو ایک انڈسٹری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔
پروفیسر الگر کا کہنا ہے کہ چونکہ سیاسی لحاظ سے کسی مذہب کے خلاف جنگ کرنا درست نہیں ہے لہذا مذہب کے ساتھ ایک صفت کا اضافہ کیا جائے تاکہ جنگ کا جواز فراہم کیا جا سکے؛ جیسے جنگ طلب اسلام، انتہا پسند اسلام، اسلامی دھشتگردی، بنیاد پرست اسلام اور سیاسی اسلام۔ امریکیوں نے ’’جنگ طلب اسلام‘‘ کو اپنا دشمن معین کیا ہے۔