نوآم چامسکی امریکی پروفیسر، ماہر لسانیات، نظریہ پرداز اور مفکر ہیں جنہوں نے ایک مکالمے کے دوران کہا ہے کہ ۱۹۷۹عکے انقلاب کے بعد استقلال اور خودمختاری کی طرف حرکت شروع کی چنانچہ امریکہ کے سیاستدان تہران سے نفرت کرنے لگے اور اس نفرت میں مسلسل شدت آرہی ہے۔
شلومو سینڈ کا یہودیوں اور سرزمین مقدس کے درمیان تعلق کے بارے میں کہنا ہے: ’’میں نہیں سمجھتا کہ ایک سرزمین سے مذہبی لگاؤ، اس کے تاریخی حق کا جواز فراہم کر دے‘‘۔
انہوں نے ایرانی اور عربی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح اعلان کیا کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ممکنہ جنگ میں کبھی بھی صہیونی ریاست کی حمایت نہیں کریں گے۔
امریکی سفارتخانے ’جاسوسی کے گھونسلے‘ پر قبضہ کئے جانے کے بعد آپ کی سب سے پہلی فلم ’’واقعیت‘‘ منظر عام پر آتی ہے اور اسی فلم میں امریکہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے امریکہ سے اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہیں۔
یمن کے سلسلہ میں ڈیوڈ سان کا ماننا ہے دوسری عالمی جنگ کی طرح آج بھی کچھ حکومتوں کی حماقت، مفاد پرستی و خود خواہی نے بین الاقوامی قوانین کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ یمن کچھ حکومتوں کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔
ناصرالدین شاہ کے قتل کے بعد نئے قاجاری بادشاہ مظفر الدین شاہ قاجار کے زمانے میں - تقریبا سنہ 1898ء میں - تہران میں اور پھر یکے بعد دیگرے دوسرے شہروں میں اس اتحاد کے شعبے قائم کیے گئے؛ تاکہ یہ شعبے ایران میں اس صہیونی ادارے کے اہداف و مقاصد کی پیروی کریں اور ان پر عملدرآمد کریں۔ یہ کوششیں پہلی عالمی جنگ تک حیرت انگیز انداز سے نہایت پراسرار طور پر، جاری رہیں۔
پروفیسر باگبی ایک انتہا پسند مسلمان ہیں جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ: "آخرکار ہم [مسلمان] کبھی بھی اس ملک [امریکہ] کے مکمل شہری نہیں بن سکتے کیونکہ کسی صورت میں بھی مکمل طور پر اس ملک کے قوانین اور عقائد و نظریات کے پابند نہیں ہوسکتے"۔
ہرٹزل نے اپنی دوڑ دھوپ سے یہودی مملکت کے قیام کی راہیں ہموار اور مشکلیں برطرف کرنے کیلئے سالانہ کانفرنس کا انتظام بھی کیا تھا جس میں دنیا بھر کے اعلیٰ یہودی شریک ہوتے اور تسخیر کائنات کے منصوبے بناتے ۔
یہودی ملک کے قیام کیلئے سب سے پہلے اس شخص نے یوگنڈاکا انتخاب کیا تھا ، لیکن یہودیوں نے اس تجویز کو رد کردیا ۔