یہودی حکومت کے قیام کے لئے امریکہ فرانس اور انگلینڈ کے سربراہوں سے بار بار ملاقاتیں کیں ، اور یہودی مملکت کے لئے راستے ہموار کئے ۔
۱۷؍دسمبر ۱۹۱۷ھ کو یہ شخص فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہوا اور فخریہ کہا ’’میں آخری صلیبی ہوں ‘‘ اس جملہ کا مفہوم یہ تھا کہ بیت المقدس پر قبضہ کیلئے یورپی مسیحیوں نے ۱۰۹۶ء میں صلیبی جنگوں کے سلسلے کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام اب ہواہے ۔
یہی وہ شخص تھا جس نے برطانیہ پر دباؤ ڈالا کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پراگندہ تیس چالیس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بود و باش دی جائے ۔
۲۰۰۸ میں دئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اعلان کیا: تمام امریکی صدور ’’یہودی طاقت‘‘ کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہودی عالمی اور انسانی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
پروفیسر بازیان نے اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بالکل "جدید قدامت پسندانہ افکار" کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ سرکاری حکام، اسرائیل نوازی، عیسائیوں کے حقوق اور تیل کی صنعت وہ چار عناصر ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی کی پشت پر ہیں۔
پروفیسر نیکولس ڈی جینووا: امریکی حب الوطنی استعماری جنگوں اور سفیدفاموں کی فوقیت کے تصور سے الگ نہیں ہے۔ امریکی جھنڈے آج عراق میں جارح امریکی جنگی مشینری کی علامت ہے۔ امریکی جھنڈے جارحیت اور قبضے کی علامت ہیں"۔
ڈیوڈ دسمبر ۲۰۶ ء میں ہلوکاسٹ کے سلسلہ سے ہونے والی کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک اہم مقرر تھے، انہوں نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا جو بھی آج کی دنیا میں ہلوکاسٹ کے بارے میں کچھ کہتا ہے وہ ایک دلیر و شجاع انسان ہے۔
یہ بات ناامید کرنے والی ہے کہ عرب خواتین کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مقابلے میں، قدیم سامراجیوں کے مقابلے میں اور اپنے مَردوں کے مقابلے میں طاقتور بننے کوشش کرنا پڑ رہی ہے، اور حالات اس قدر دشوار ہوچکے ہیں کہ عرب خواتین کو جنگ میں شرکت کرنا پڑ رہی ہے؛ اور یہ مطلق ناامیدی کی علامت ہے"۔
فرانس کے سماجی ماہر، فلاسفر، مورخ اور سیاسی مفسر رائمنڈ آرون اپنے مقالے ’’آرتھور کویسٹر اور آدھے دن میں تاریکی‘‘ میں کویسٹر کو زمانے کی ایک عظیم روشن فکر شخصیت کا نام دیتے ہیں کہ جس نے بیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں عالم وجود میں قدم رکھا