فاران: امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) نے صلح و مصالحت کا راستہ کیوں اپنایا اور امام حسین (علیہ السلام) نے جنگ اور قتال کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ ان دو معصوم اماموں کے عصری تقاضوں میں فرق کیا تھا؟ جواب: شک نہیں ہے کہ امام حسن (علیہ السلام) کے زمانے کے تقاضے امام حسین (علیہ […]
رہبر انقلاب اسلامی نے امام رضا علیہ السلام کے سلسلہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کو ایک مستحسن عمل قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ’’ اس طرح کے پروگرام ہوتے رہنا چاہیے اسلئے کہ ہم ائمہ علیہم السلام کی معرفت کے سلسلے میں کمزوریوں اور خامیوں میں مبتلا ہیں‘‘
مولائے کائنات کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ "ہم توحید اور نبوت میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے جبکہ تم (یہودی) تو توحید میں ہی شک و تذبذب کا شکار ہوئے اور اپنے پیغمبر سے بھی مخالفت کی، یعنی نبوت پر بھی تمہارا کوئی یقین نہیں تھا اور ہمارے ہاں کے اختلاف اور تمہارے درمیان کے اختلاف میں بعد المشرقین ہے
شہید قاسم سلیمانی نے اپنے نام کا حق ادا کیا اور خود کو ٹکڑوں میں بکھیر کر امام عصر (عج) کو سنبھال لیا۔ بلاشبہ آج ہر دل میں موجود سردار سلیمانی کی محبت جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی ہی دعا ہے۔ شہید کی زندگی کا ہر پہلو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ حقیقی عاشق خدا و رسول تھے۔
اسلام میں ہرگز شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ نہیں پایا جاتا۔ شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمیں وحدت کلمہ کو برقرار رکھنا چاہیئے۔ ہمارے ائمہ اطہار (ع) نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم آپس میں متحد رہیں اور باہمی اتحاد کی حفاظت کریں۔ جو بھی اس اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، وہ یا تو جاہل ہے یا خاص اہداف کا حامل ہے۔
حالیہ قرآن کریم کی اہانت کو دیکھ لیں دو طرح کے رد عمل ہمارے سامنے ہیں ایک عام مسلمانوں کا ایک کربلائی رد عمل کربلائی رد عمل ہی کی بنیاد پر ہمیں سوشل میڈیا میں یہ دیکھنے کو ملا کہ قرآن کی بے حرمتی کرنے والوں نے ہمارے مراجع کرام کو بھی نشانہ بنایا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود اس بات کو جانتے ہیں اگر واقعی اس دور میں قرآنی تعلیمات پر کوئی عمل پیراں ہے تو یہیں فقہا ہیں۔
اگر یہ بات ارسطو افلاطون کے لئے کہہ سکتا ہے تو ہم سب کو بھی سمجھ میں آنا چاہیے کہ خاندان ہمارے لئے عزیز ہے لیکن حقیقت سے زیادہ نہیں ؟ قوم عزیز ہو ٹھیک ہے لیکن حقیقت سے زیادہ نہیں کوئی ادارہ عزیز ہو اچھی بات ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ حقیقت سے زیادہ عزیز ہو جائے ، اولاد عزیز ہو ٹھیک ہے لیکن ایسا نہ ہو حقیقت سے زیادہ عزیز ہو جائے ، اس لئے کہ جہاں ہم حقیقت کی راہ سے ہٹیں گے وہیں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا ۔
خواہشوں کے بپھرے سمندر کے سامنے ہمارے پاس بس ایک ہی راستہ ہے کہ خود کو کشتی نجات میں سوار کر لیں وہ کشتی جو ہماری خواہشوں کو کنڑول کر کے ہمیں ساحل توحید سے ہمکنار کردے گی اور ہماری نجات یقینی ہو جائے گی ۔
انبیاء جو قوتوں اور صلاحیتوں کو متحرک اور منظم کرتے ہیں وہ صرف فرد کی تعمیر اور انسانی معاشرے کی تعمیر کے ایسا کرتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں وہ انسانی سعادت وکامیابی کے لیے ہوتے ہیں، فرد کو بگاڑنا یا انسانی معاشرے کو برباد کرنا ن یہ چیز ناممکن و محال ہے ، یعنی ان یہ کوشش معاشرے اور فرد دونوں ہی کی تعمیر کے لئے ہوتی ہے خواہشوں کو ابھار کر وہ معاشرہ کو تباہ کریں ایسا محال ہے