آلِ سعود کی سرپرستی میں مقدسات کے انہدام کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کی وجہ حج و عمرہ کی کمائی سے حاصل ہونے والا منافع ہے۔ ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ حجاج اور زائرین کو رہائش فراہم کرنے کی غرض سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے آس پاس تعمیرات جاری ہیں۔
آئمہ معصومین(ع) اور بعض دوسرے اکابرین کی قبروں پر گنبد و بارگاہ موجود تھی، جسے پہلی بار تیرہویں صدی ہجری اور دوسری بار چودہویں صدی ہجری میں وہابیوں نے شہید اور منہدم کر دیا، جس پر پاکستان ، ایران اور ہندوستان سمیت مختلف اسلامی ممالک کے شیعہ اور سنی علماء اور عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
اس شب کی عظمت کو ہم درک کریں تو ہمیں کیا کچھ نہیں مل سکتا جس شب کے بارے میں اللہ ملائکہ سے کہہ رہا ہے کہ جاو اور فریاد کرو کہ کیا کوئی حاجت مند، مشکلات میں گرفتار ، گناہوں میں آلودہ بندہ ہے جسے اس شب کے طفیل بخش دیا جائے ؟
کیا علیؑ ہوتے تو شبہایے قدر میں اپنے لئے دعائیں کر کے سبکدوش ہو جاتے؟ یا پھر دعائوں کے ساتھ ظالم و غاصب اسرائیل کی نابودی کے لئے عملی طور منصوبہ بندی بھی کرتے اور پروردگار سے بھی گڑگڑا کر دعاء کرتے کہ مالک مسلمانوں میں اتحاد و بصیرت پیدا کر کہ اپنے حق کے لئے لڑ سکیں اور حق پر مر سکیں ۔
قرآن اور علی کو سمجھنے کے لئے اس ماہ مبارک سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے جس مہینہ میں ایک طرف تو قرآن نازل ہوا تو دوسری طرف محافظ قرآن کے خون سے محراب مسجد رنگین ہو گئی ،کیا قرآن صامت کا اس مہینہ میں نزول اور قرآن ناطق کا اسی مہینہ میں عروج ان دونوں کے غیر معمولی رابطہ کی طرف اشارہ نہیں ہے ؟
علی اور قرآن کتنی یکسانیت ہے دونوں میں ؟ سچ کتنی اپنائیت ہے دونوں میں ؟ جیسے دونوں کا وجود ایک دوسرے ہی کے لئے ہو دونوں ایک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوں … ایک دوسرے کے درد آشنا ہو مونس و ہم دم ہوں ہم راز و ساتھی ہوں ۔
امام بخاری اورامام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن کو کندھے پربٹھائے ہوئے فرما رہے تھے خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ۔
یہ وہ مہینہ ہے جس میں انسان اپنی روحی آلودگیوں کو دور کر سکتا ہے خود کو پاکیزہ بنا سکتا ہے ، اپنے آپ کو پاکیزہ بنانے کی کوشش معمولی کوشش نہیں ہے طہارت نفس کے لئے کوشاں ہونا معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو انبیا الہی کا ہدف و مقصد رہا ہے قرآن کریم نے تعلیم و تزکیہ کو ہدف انبیا کے طور پر پیش کیا ہے۔
حضرت امام مہدی (عج) کے ظہور کے وقت جس عدل و انصاف کا وعدہ دیا گیا ہے وہ انصاف انسان کی زندگی کے تمام امور منجملہ قدرت، سلامت ، انسانی کرامت اور سماجی قدر و منزلت پر مشتمل ہے۔ اور اللہ تعالی کی قدرت اور مدد سے حضرت امام مہدی علیہ السلام اس وعدے کوعملی جامہ پہنائیں گے اور اللہ تعالی کی عالمی حکومت کا دنیا بھر میں بول بالا ہوگا۔