شک نہیں کہ دشمن ہمارے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہمارے ہی مذہب کو ہمارے ہی خلاف استعمال کر رہا ہے تکفیریت کو آپ کیا نام دیں گے یہ مذہب علیہ مذہب نہیں تو کیا ہے ، یہ کہاں سے پنپ رہی ہیں کون اسے سپورٹ کر رہا ہے فرقہ واریت کیا ہے کہاں سے اس جونک کو خون مل رہا ہے کون اسے اسلامی معاشرے کے پیکر میں پیوست کر کے خوش ہو رہا ہے سب کچھ سامنے ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وحدت کانفرنس میں آئے ہوئے دنیا بھر کے علماء اور دانشوروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ ایک اہم سوال اٹھایا کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ آج ہمارا اہم مسئلہ کیا ہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلے میں مسلمانوں اور مومنین کا کیا فریضہ ہے؟ کیا ہماری کوئی ذمہ داری بھی بنتی ہے یا نہیں ؟
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس طرح کے موضوع پر بڑا اجلاس ہوتا ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ کوشش کریں علماء و عمائدین اور دانشور حضرات کی بات عام لوگوں تک پہنچیں دوسری بات یہ کہ عملی طور ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ بھائی چارے کی فضا کو بڑھاوا دیں تاکہ عملی طور پر اتحاد کی راہ میں آگے بڑھ سکیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں۔ اس نے انہیں اس وقت بھیجا ہے جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے۔ اور دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے۔انہوں نے حق کا واشگاف انداز سے اظہار کیا۔ لوگوں کو ہدایت دی اورسیدھے راستہ پر لگا کر میانہ روی کا قانون بتا دیا۔
اسرائیل سے تعلقات استوار کرتے وقت آذربائیجان کے بنیادی اہداف صہیونی رژیم کے ذریعے امریکہ اور یورپی ممالک سے قریبی تعلقات استوار کرنا، اپنے ملک میں یہودی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرنا، اسرائیل کے زیر اثر یہودی لابی کی طاقت سے فائدہ اٹھانا، جدید ٹیکنالوجی کا حصول، قرہ باغ تنازعہ حل کرنے میں مدد حاصل کرنا اور ملکی صنعت کو ترقی دینے پر مشتمل تھے۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں : ’’حق بات وہی ہے جس کا شیخ صدوق اور شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہما نے اظہار کیا ہے اور ہمارے بزرگان اسی عقیدے پر ہیں کہ ’’حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کا سبب مأمون کا دیا ہوا زہر تھا خداوند کی بے شمار لعنتیں مأمون اور دوسرے ظالم و غاصب حکمرانوں پر ہوں ’’۔
بحیرا کا انتباہ درحقیقت رسول اللہ(ص) کو درپیش خطرے کی نشاندہی کررہا تھا۔ نبی آخرالزمان(ص) کے ساتھ یہود کی دشمنی اس قدر شدید تھی کہ بحیرا بھی ـ جو کہ عیسائی عالم تھا ـ جان گیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ ابوطالب اس دشمنی سے بےخبر ہیں۔
یہودیوں نے بنی اسماعیل کا تعاقب یعقوب علیہ السلام کے فورا بعد نہیں تو کم از کم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے کے بعد، ضرور شروع کیا اور یہ تعاقب ابتدائے اسلام میں مختلف لبادوں کے پیچھے جاری رہا اور رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد اس نے اپنا بھیس بدل دیا۔
اگر ہم کربلا سے اپنی روح کو متصل کر دیں تو یقینا ایک ہی مقام پر ہمیں یکجا وہ ساری چیزیں مل سکتی ہیں جنکی بنیاد پر ہم دنیا میں سربلندی کے ساتھ جی سکیں، اس لئے کربلا کی روح کی فریاد ہے ، ھیھات منا الذلہ ۔۔۔اور یہ اربعین امام حسین علیہ السلام اسی ھیھات منا الذلہ کی ایک ادنی تفسیر ہے۔