جب مطلع کارزار نمایاں ہوتا ہے، چمکتی ہوئی تلواریں ٹہرتی ہیں، کمانوں کی گڑگڑاہٹ تھمتی ہے، نیزوں برچھیوں والے اپنے نیزوں کو لئے پیچھے کی طرف ہٹتے ہیں تو پتہ چلتا ہے نہ سامنے کوئی فوج تھی، نہ کسی فوج کو جغرافیائی برتری حاصل تھی اور نہ بھاری اسلحے و ہتھیار تھے۔ صرف ایک جنگجو تھا ایک بہادر تھا جو ایک تاریک و تنگ گلی میں یک و تنہا لڑ رہا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس سال پیغام حج میں زور دے کر فرمایا: مسلم اقوام حالیہ ڈیڑھ سو سال میں عموما جارح مغربی طاقتوں کی طمع، دخل اندازی اور شرانگیزی کی زد پر رہی ہیں، مسلم امہ کو چاہئے کہ ماضی کی بھرپائی کرے اور اس زور زبردستی کا مقابلہ کرے۔
اگر اس ملاک و معیار پر دنیا میں عمل ہوتا تو آج ہر طرف برائیوں کا دور دورا نہ ہوتا ظالموں کو ظلم و زیادتی کا موقع نہ ملتا، کسی ایک ملک کو چاروں طرف سے گھیر کر تنہا نہ کیا جاتا، شیخ زکزاکی جیسے مرد مجاہد کے ساتھ زیادتی نہ ہوتی، ہمارے ملک میں مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔
ہجرت کے دوسرے سال علی مرتضیٰ(ع) اور فاطمہ زہرا(س) کا خدا کے اذن سے عقد ہوا تاکہ کوثر نبوی شجرہ علوی کے ساتھ مل کر کائنات میں ثمرات طیبہ نچھاور کریں۔
شادی صرف چند روزہ زندگی گزارنے کا نام نہیں ہوتا بلکہ دین کو مکمل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے تو ایسے میں اگر اس ازدواجی زندگی کا آغاز ہی بے دینی اور غیر شرعی رسومات سے ہو تو ایسی ازدواجی زندگی کیا دین کے مکمل ہونے کا باعث بن سکتی ہے؟
اھل دنیا کو جو کہ آپ کی بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے، یہ تصور ضرور ھوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شھنشاہ کا داماد ھوجانا یقیناً اس کے چال ڈھال اور طور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی.
خداوند عالم نے اس آیت میں مسلمانوں کو عیسائیوں کے ساتھ ملنسار اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کی دعوت دی ہے اور خاص طور پر اس اعتبار سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام امام مہدی موعود کے ساتھ ظہور کریں گے اور ان کے ساتھیوں میں سے ہوں گے۔
مروی ہے کہ حضرت محمد(ص) کی ولادت کے بعد، ایک روز ایک یہودی عالم دارالندوہ میں حاضر ہوا اور حاضرین سے پوچھا کہ “کیا آج رات تمہارے ہاں کسی فرزند کی ولادت ہوئی ہے؟”، سب نے نفی میں جواب دیا۔ کہنے لگا کہ اگر نہیں ہوئی ہے تو فلسطین میں ہوئی ہوگی، ایک لڑکا جس کا نام “احمد” ہے۔۔۔
ذبح اسماعیل(ع) کا واقعہ گذشتہ اور موجودہ حالات کی شناخت کے سلسلے کا کلیدی نکتہ ہے لیکن یہود نے اس الہی منصوبے کو منحرف کرکے ذبح اسماعیل کو ذبح اسحاق(ع) کے عنوان سے پیش کیا۔