آج ہماری ایک بڑی مشکل یہ ہوگئی ہے کہ ہمارے درمیان ایسے ضمیر فروش لوگ گھس آئے ہیں جو نہ فکر حسینیت سے آشنا ہیں نہ ہی انہیں کربلا کی آفاقیت کا علم ہے اور نہ امام حسین ع کی قربانیوں کی عظمت کو وہ سمجھتے ہیں۔
پس وقت کا تقاضا ہے کہ امت مسلمہ کربلا کے ایک ایک کردار کو اپنا رول ماڈل بنائیں ۔عزاداری کے ساتھ ساتھ ان کی سیرت کو بھی اپنائیں تاکہ آج جوعالمی طاغوت کے ساتھ جگہ جگہ پر معرکے بپا ہیں ان کو بآسانی سے سر کرلیا جائے۔جب تک کربلا کے جانبازوں کے کردار ،افکار اور نظریات کو ہم اپنے معاشرے میں نافذ نہیں کریں گے تب تک کربلا کے اصل ہدف اور مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
حسین (علیہ السلام) نے آسان راستہ منتخب نہیں کیا، بلکہ مشکل ترین راستہ انتخاب کیا، اپنے لئے نہیں بلکہ آزادی، انسان کی شرافت و حقیقت، انسان ہونے، انسان رہنے اور انسان کی صورت میں ہی جانے کے لئے۔
جب لوگ اپنے ایمان کی بولی لگا رہے تھے تو یہ عاشق حسین آواز دے رہا تھا عشق حسین نے مجھے اتنی طاقت دے دی ہے کہ جس ظالم سے پورا کوفہ تھر تھر کانپ رہا ہے میں اسکے سامنے اسکے اشارے پر ایک پیر بھی اٹھا کر رکھنے کو تیار نہیں ہوں ، جہاں ہوں حسینت کے ساتھ ہوں اور ڈٹا رہوں گا میرا نام میرا اعتبار میری خاندانی وجاہت سب حسین پر قربان ۔
حقیقت یہ ہے کہ یزید کو نماز روزہ اور حج سے کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اُسے اس نظام سے مسئلہ تھا، جو رسول لے کر آئے تھے اور نظامِ رسالت بنیادی طور پر ان اصولوں پر مشتمل تھا، جس کی اساس تہذیب پرستی اور افضلیت بشر تھی۔
امام حسین علیہ السلام کو صرف اپنی فکر نہ تھی بلکہ سماج و معاشرے کی تڑپ آپکے دل میں تھی آ پ دیکھ رہے تھے توحیدی راستے سے ہٹ جانے والا یہ سماج کس قدر پستی کی طرف جا رہا ہے لہذا آپ نے دوبارہ اسے اپنی منزل پر لانے کے لئے قیام فرمایا یہ عزاداری اسی قیام کربلا کا تسلسل ہے ہم سب کے لئے لازم ہے کہ اسے بھرپور انداز میں زور و شور کے ساتھ منائیں اور کوشش کریں کہ اس کے سایے میں توحیدی تصور حیات واضح ہو سکے انشا ء اللہ۔
آج اگر یہ کہا جائے کہ مباہلہ سے ہم نے کیا حاصل کیا تو مباہلہ کا ایک اہم درس یہی ہے کہ ہم سجھ لیں کل اگر پیغام نبی رحمت ص میں سچائی نہ ہوتی صرف زبانی دعوے ہوتے تو کبھی اپنی زبانی نصارائے نجران کبھی اپنی شکست کا اعلان نہ کرتے ، اگر پیغام توحید کو محض تلوار کے بل پر پھیلانے کی کوشش کی گئی ہوتی تو ہرگز مباہلہ میں کردار کی لازوال فتح نہ ہوتی
ایڈیٹر انچیف روزنامہ کیہان حسین شریعتمداری نے لکھا: امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) فرمایا کرتے تھے: "غدیر اُس زمانے تک محدود نہیں ہے، غدیر کو تمام زمانوں میں ہونا چاہئے، اور جو روش حضرت امیر (علیہ السلام) نے اپنی حکومت میں اپنائی ہے، اسے اقوام اور حکام کی روش ہونا چاہئے"۔
عید غدیر کا جو حقیقی پیغام تھا یعنی کہ اپنے امام سے عہد کرنا، ولایت کو دل سے نہ صرف قبول کرنا بلکہ اس کو زندہ کرنا تھا۔ اس کا مبلغ بننا تھا۔ لیکن افسوس ہم نے غدیر کو زیادہ تر نعرے بازی، لذیذ کھانوں، نئے لباس تک محدود کیا ۔بلکہ اب تو یہ چیزیں بھی دن بہ دن متروک ہوتی جارہی ہے۔ جن لوگوں نے ولایت کی نعمت کی قدر کی وہ آج بھی سر بلند ہے ۔