فلسطینیوں کا رمضان کی آمد پر اسرائیلی صفحات کی مبارکبادی کے پیغامات پر ردعمل حیرت، غصے اور سوالات کے واضح نشانات کا امتزاج ہے کہ ایک قابض حکومت کی گستاخی کی حد کہاں تک ہو سکتی ہے۔
جہاں دنیا بھر کے یہودی حنوکا کو اپنے تہوار کے طور پر مناتے ہیں، اسی دوران دنیا بھر میں مختلف خفیہ انجمنیں جیسے کہ فراماسونری، ایلومیناتی، جمجمه اور ہڈیاں، بوہیمیئن گروو، عشترہ وغیرہ بدترین شکل میں شیطانی جادوئی اور قدیم مذہبی رسومات ادا کرتی ہیں، جو بعض اوقات مخصوص قربانیوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔
تاریخ میں ایسے کئی مثالیں موجود ہیں کہ ظالموں کو ابتدا میں فتوحات حاصل ہوئیں، لیکن ان کے مظالم کی وجہ سے وہ عوام میں مقبول نہ ہو سکے اور آخرکار زوال پذیر ہو گئے۔ اس کی ایک مثال مغل سلطنت ہے، جو تاریخ کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک تھی۔
بے شک تمام تر مظالم اور جنگیں ـ جو روئے زمین پر نسلوں کے قتل اور حرث کی نابودی کا سبب بنتی آئی ہیں اور بن رہی ہیں ـ اسی اختلاف کی بنا پر ہیں اور اگر یہودی اور عیسائی حق کی پیروی کرتے اور محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر ایمان لاتے تو وہ خود بھی فلاح یافتہ ہوتے اور دنیا میں بھی صلح و رحمت کا بول بالا ہوتا۔
یہودی اور عیسائی علما اسحاقؑ کو ابراہیمؑ کی قربانی کے طور پر متعارف کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
یورپ کے مقامی بادشاہ اور حکمران یہودیوں کی سودخوری کو اپنی درآمدوں کا اصلی ذریعہ سمجھتے تھے اور کھلے عام یا خفیہ طور پر وہ یہودیوں کے اس کام کو میدان دیتے تھے۔ جرمنی کے ایک حکمران کے بقول یہودی، بادشاہوں کے خزانے ہوتے تھے۔
یہ قوم ہے، اور اس قوم کے لئے توریت کو نازل ہونا ہے اور انہیں شریعت کا مالک بننا ہے، اور انہیں اس پر عمل کرنا ہے، اور اپنی فردی اور سماجی دنیا اور دنیاوی اور اخروی اعتقادات کو اس کتاب اور اس شریعت کی کسوٹی پر پرکھنا ہے۔
مطلب یہ نہیں ہے کہ توریت کو مضبوطی سے تھام لو، اور اسے اپنے سے چپکا کے رکھو اور اسے چوم لو، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسے سیکھ لو، یاد رکھو اور اس پر عمل کرو۔ یہ سب کرو گے تو تمہارے لئے ایک ماحول پیدا ہوگا کہ تم تقوی اختیار کر سکو اور صحیح راستے پر گامزن رہو اور نجات حاصل کرو اور سعادت حاصل کرو۔
داستان سن کر یہودی عالم نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ جو کچھ آپ نے کہا وہ بالکل صحیح ہے، اور آپ اپنے پیغمبر کی جانشینی کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔