یہ بل ملک میں موجود شدت پسند عناصر کے ہاتھ میں قانونی آلہ قتل دینے کے مترادف ہے، جس کے ذریعے وہ کسی بھی شخص، سوچ، تحریر کو معدوم کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ کیا ایسے قانون کی نظیر عالم اسلام یا دنیا کے کسی اور ملک میں ملتی ہے، جس میں ملزم کو گرفتاری کے وقت ہی مجرم قرار دے دیا جائے اور اس سے ضمانت کا حق بھی سلب کر لیا جائے۔
سعودی عرب کی وزارت دفاع نے بھی ڈرون بنانے والی ترک کمپنی "Baykar" کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے کا اعلان کیا اور ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب نے اردگان کے دورہ ریاض کا اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ دونوں فریقوں کی طرف سے مفاہمت کی یادداشتوں پر عمل درآمد میں ایک طویل وقت لگے گا
آج اگر مغربی کنارے میں موجودہ اسلحہ غزہ میں موجودہ ہتھیاروں سے زیادہ نہ ہو تو کم بھی نہیں ہے اور دوسری طرف سے جتنی آزادی عمل مغربی کنارے کے عوام کو حاصل ہے، غزہ کے گھرے ہوئے علاقے کو حاصل نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مغربی کنارہ بہت تیزرفتاری سے، صہیونی ریاست کے ساتھ جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن جو نسخہ جرائم پیشہ یہودی ریاست نے اس علاقے پے غلبہ پانے کے لئے تجویز کیا ہے، مؤثر نہیں ہے۔
آج جو مزاحمتی کاروائیاں انجام پا رہی ہیں وہ محض جنین کیمپ کے شہداء کے خون کا بدلہ نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی اور مضبوط ارادے کا نتیجہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو موجودہ فلسطینی نسل کو گذشتہ نسلوں سے ممتاز کرتی ہے اور صیہونی آبادکاروں کی وحشت مزید شدید ہونے کا باعث بھی ہے۔
یہ ایسی صورتحال ہے کہ جس نے پوری مسلم دنیا میں خوشی کی لہر پیدا کر دی ہے۔ یقینی طور پر اس صورتحال سے اگر کوئی ناخوش ہے تو وہ شکست خوردہ امریکی حکومت اور اس کے حواری برطانوی استعمار اور ناجائز اولاد اسرائیل ہیں کہ جو خطے کی ان تبدیلیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
بس اس بچے کا قصور تو یہی تھا کہ وہ فلسطینی تھا۔ کیا عالمی برادری کا ضمیر جاگے گا؟ میں ایک لکھاری ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ یہ سوال اٹھاتا رہوں گا کہ عالمی برادری اور دنیا میں انسانی حقوق کا دم بھرنے والے عالمی ادارے اور اسی طرح کے دیگر ادارے کہ جو جانوروں کو تکلیف پہنچنے پر واویلا برپا کر دیتے ہیں، کیا کبھی دو سالہ فلسطینی محمد التمیمی کے قتل پر خواب غفلت سے بیدار ہوں گے؟
اسرائیل کے لیے اصل مسئلہ نئے میزائلوں کی نقاب کشائی ہے، جو وار ہیڈز لے جاسکتے ہوں اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ایران اور سعودی عرب قریب آرہے ہیں۔ ایران اس طرح کے جدید ہتھیاروں کی رونمائی سے خطے کے ممالک کے شانہ بشانہ خلیج فارس کی سلامتی کے تحفظ کی اپنی صلاحیت کے بارے میں پیغامات بھیج رہا ہے اور علاقائی ممالک کو باور کرانا چاہتا یے کہ وہ خطے کی سکیورٹی اور دفاع کو یقینی بنا سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے پاکستانی دفتر خارجہ نے پریس بریفنگ میں اعلان کر دیا کہ پاکستان کسی روسی بلاک میں نہیں جا رہا، ہمارے امریکہ کیساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہم بلاکس کی سیاست نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ، یہ وضاحت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟ اپنی نوکری بچانے کی فکر ہے شائد۔ اس لئے پاکستان کو توڑنے کے منصوبے بہرحال ہیں، لیکن پاکستان کے عوام ان سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ یہ 70 کی دہائی نہیں، بلکہ 2023ء چل رہا ہے، نوجوان باشعور ہیں، اچھے بُرے کی تمیز بھی جانتے ہیں۔ یہ وطن ہماری دھرتی ماں ہے اور ماں کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے، ہم باہمی اتحاد سے دھرتی ماں کو مزید ٹکڑے ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک ہوور نے ایران پر قابو پانے کی امریکی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی کوششوں کے باوجود، ایران نے تیل کی برآمدات کو دو گنا کر دیا ہے، اور ایران ہی ہے جس نے خلیج فارس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ فائنانشل ٹائمز نے بھی اعتراف کیا ہے کہ تیل کی بڑی کمپنیاں ـ پابندیوں کے باوجود ـ ایرانی بجلی خرید رہے ہیں۔