اب بھارت، اسرائیل اور امریکہ، تینوں مل کر پاکستان میں کھیل رہے ہیں۔ تینوں کی سازشیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور ہم بڑے آرام سے دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ گویا ہم پاکستان کے محافظ ہی پاکستان کے مخالف بن چکے ہیں۔ شنید ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں کچھ ادارے ملوث ہیں، اب تحقیقات ہوں گے، حقائق سامنے آئیں گے، مگر ہونا ہوانا کچھ نہیں، نشستن، گفتن، برخاستن ہوگا، سب روٹی شوٹی کھا کر گھروں کو چلیں جائیں گے، پاکستان وہیں گرتا، پڑتا، لڑکھڑاتا، چلتا رہے گا۔ اللہ ہمارے پاکستان کو محفوظ رکھے۔
شہید کبھی مرتا نہیں ہے۔ شہید خضر عدنان ہمیشہ حریت پسندوں کے دلوں میں آباد رہیں گے۔ جب جب شہید خضر عدنان کا نام آئے گا دنیا کے انسانوں کا خون پینے والے عالمی ادارے اپنے وجود سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ خضر عدنان کی شہادت فلسطین اور القدس شریف کی آزادی کے راستے کا ایک جُز ہے۔ عالمی اداروں کی اس قدر بے حسی اور مجرمانہ کردار کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ عالمی ادارے استعماری قوتوں کی کاسہ لیسی کرنے کی وجہ سے اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اس میں سرفہرست ہے۔
چین کی وساطت سے، ایران-سعودی سمجھوتے پر دستخطوں نے ایک دنیا کو حیران کر دیا اور تجزیہ کاروں کو اس اہم اور غیر متوقعہ واقعے کی مختلف جہتوں پر بحث و مباحثے کی طرف راغب کر دیا۔
نیتن یاہو کی سربراہی میں موجود صیہونی حکومت اس منصوبے کو مکمل کر کے اپنے لئے بڑی سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے درپے ہے۔ صیہونی رژیم مسجد اقصی پر جارحانہ اقدامات کے ذریعے ایک طرف مزاحمتی کاروائیاں روکنا چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف مسجد اقصی پر اپنا مکمل کنٹرول قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ یہ وہی مقصد ہے جس کا اعلان سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی صیہونزم کانفرنس میں کیا گیا تھا اور اب نیتن یاہو کی شدت پسند کابینہ انتہاپسند یہودیوں کی مدد سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
صہیونی اخبار اسرائیل ہایوم نے ایران-سعودی سمجھوتے کو جعلی صہیونی ریاست کے لئے باعث تشویش قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ صہیونی ریاست ہمیشہ کے لئے خطے میں کشیدگی سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے چنانچہ خطے میں کسی بھی قسم کا اتحاد و استحکام یہودی ریاست کے مفادات کے لئے بری طرح نقصان دہ ہے۔
شام کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے عرب ممالک نے دمشق کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات کی بحالی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ شام کے بحران کو 12 سال گزر چکے ہیں۔ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت بعض عرب ممالک ان عرب ممالک میں شامل ہیں، جنہوں نے شام کے بحران کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ترکی حالیہ برسوں میں ایک بڑے معاشی بحران سے نبردآزما ہے اور حالیہ زلزلے کے بعد اس ملک کے مسائل دوگنا ہوگئے ہیں۔ اس لیے شامی پناہ گزینوں کی میزبانی جاری رکھنا ترک حکومت کے لئے مشکل ہوگیا ہے۔
اس پیشترفت پر دنیا، عالم اسلام، مزاحمتی فورسز اور عالمی اسٹیک ہولڈرز نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ عالم اسلام اور عرب دنیا کا کون سا ملک نہیں ہوگا، جس نے اس اہم قدم پر ایران اور سعودی عرب کو مبارک باد نہ دی ہو۔ خطے میں امریکی ہمنواوں نے بھی اس پیشرفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ فلسطین، لبنان اور یمن کی مقاومتی فورسز بھی اس معاہدے پر خوشحال دکھائی دیں۔ لیکن کیا اس معاہدے کے بعد خطے کو درپیش چیلینجز کا خاتمہ ہوگا۔ یمن بحران کہاں تک پار لگے گا۔؟ ۔۔۔۔
فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہ بارہا فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے اس بات کا مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ تل ابیب کا ساتھ دینا ختم کر دے۔ لیکن محمود عباس نہ صرف اسلامی مزاحمت کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ ہمیشہ ان کی پشت میں خنجر مارتا ہے۔