امام صادق(ع) انسٹی ٹیوٹ کے فیکلٹی ممبر نے لکھا: اب طالبان کی حکمرانی کو کمزور کرنے کی بلاواسطہ اور بالواسطہ کوششوں کے ساتھ ساتھ اور طالبان حکومت کے موقف کو ضمنی یا واضح طور پر قبول کرنے یا نہ کرنے، کے حوالے سے اس جماعت کے تئیں امریکہ کا دوہرا موقف بالکل واضح ہو چکا ہے۔
ترکی ایک مسلمان ملک ہے اور دنیا کے عوام کے مابین ترک حکومت کی عزت اسی لئے تھی کہ ترک حکومت نے ماضی میں فلسطین کاز کی حمایت میں اقدام اٹھائے تھے، لیکن اب رفتہ رفتہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ترک حکومت مسلسل امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کیلئے سرگرم عمل ہے، جسکے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان ترک حکومت کی اہمیت اور عزت ختم ہو رہی ہے۔
فلسطینی مزاحمت اب روز بروز طاقتور ہو رہی ہے اور غاصب اسرائیل کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے اور عنقریب اللہ کا وعدہ مکمل ہونے والا ہے اور مظلوموں کے پاؤں تلے غاصب اسرائیل کو روندا جائے گا، وہ دن اب دور نہیں اور یہ دن موجودہ نسل اور امت ضرور مشاہدہ کرے گی، ان شاء اللہ۔
تاہم اس جانب امام خمینیؒ کی طرف سے شیطانی آیات کے مصنف سلمان رشدی کے خلاف قتل کا حکم آنے کے بعد 15 خرداد فاؤنڈیشن نے سلمان رشدی کو قتل کرنے والے کو دو میلین ڈالر انعام کا اعلان کیا۔
مسئلہ فلسطین سے متعلق قابل عمل واحد حل ہے کہ جس پر تمام فلسطینی متفق ہیں اور فلسطینی عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہے۔ آج دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مہاجر فلسطینی کی پہلی خواہش یہی ہے کہ اس کو وطن واپسی کا حق حاصل ہو، حق خود ارادیت ہو، تاکہ وہ اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ خود کرے۔
جوئے بائیڈن کے دورے کے فوراً بعد روسی صدر ولادیمیر پوتین اور ترکی صدر طیب رجب اردوغان ایران پہونچ گئے ۔ایرانی صدر کے ساتھ ان کی تصویریں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ نیا ورلڈ آڈر تیار ہوچکاہے ۔یہ تصویریں ان طاقتوں کی نیندیں اُڑا دینے والی تھیں جو عالمی سطح پر ایران کو تنہا کرنا چاہتی ہیں
حالیہ مہینوں میں مغربی ایشیا میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک طرف سے عرب ممالک ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور دوسری طرف سے مغربی سفارتکار ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے احیاء میں حائل رکاوٹیں ہٹنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں؛ جس کی وجہ سے تل ابیب کی جعلی ریاست کو تشویش لاحق ہوئی ہے اور اس نے "ابراہیمی امن منصوبے" نامی سازش کے نفاذ کو ملتوی کر دیا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ حزب اللہ کے تعلقات نظریاتی مسائل پر نہیں بلکہ سیاسی مسائل کی وجہ سے ہیں۔
ایران سعودی تعلقات کی بہتری اور بحالی کی راہ میں بعض رکاوٹیں موجود ہیں اور صیہونی حکومت تہران اور ریاض تعلقات کی بہتری اور بحالی کو سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ میں اس اقدام کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے۔