صہیونی-یہودی حکام نے حال ہی میں شیخ نشین ریاستوں کے متعدد دورے کئے اور پھر نقب کے علاقے میں چار غدار ریاستوں کے وزرائے خارجہ کی موجودگی ميں ایک اجلاس منعقد کیا تاکہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ غاصب ریاست تزلزل اور عدم استحکام کا شکار نہیں ہوئی۔
یمنی فورسز اور قبائل نے سات برسوں تک سعودی عرب کی یمن پر مسلط کردہ جنگ میں شاندار استقامت، بہادری اور پائداری کا مظاہرہ کیا اور آخری دفاعی حملے میں جدہ میں سعودی تیل کی تنصیبات کو تباہ کرکے سعودی عرب کو جنگ بندی پر مجبور کردیا۔
غاصب صہیونی رژیم کے خوف و ہراس کی دوسری بڑی وجہ شہادت پسند کاروائی کا مقابلہ کرنے میں صہیونی سکیورٹی فورسز کی ناکامی ہے۔ شہادت پسند فلسطینی جوان پوری آزادی سے بنی براک شہر کے تین حصوں میں کاروائی انجام دینے میں کامیاب رہا۔
یہ منصوبہ درحقیقت ایک جامع منصوبہ اور انصاف پسندانہ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی رو سے جنگ کے آغاز میں یمنی عوام کے خلاف اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد نمبر 2216 اپنی افادیت کھو جاتی ہے اور اب جبکہ مغرب اور مغرب کی خدمت پر مامور تنظیموں کی سازش ناکام ہوچکی ہے اور یمن اپنی مقاومت سے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا چکا ہے۔۔۔
آج سے سات سال قبل دنیا کی کھلی آنکھوں کے سامنے، مغرب اور صہیونیت کے کہنے پر، سعودی-نہیانی اتحاد نے مغربی ایشیا کے ایک غریب ملک یمن پر ہلہ بول دیا۔ اس حملے کے لئے سعودیوں نے ایک اتحاد قائم کیا جس میں اصل کردار آج تک جزیرہ نمائے عرب پر مسلط قبیلے بنی سعود اور متحدہ عرب امارات کے حکمران نہیانی قبیلے نے ادا کیا ہے۔
آج یمنی عوام کی قتل و غارت کو سات سال مکمل ہو چکے ہیں۔ عالمی برادری کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ جو اسلحہ دن رات یمنی عوام کے خلاف بروئے کار لایا جا رہا ہے وہ آل سعود رژیم نے کن ممالک سے حاصل کیا ہے؟
حیرت کی بات ہے کہ کوئی اس جانب بھی متوجہ نہیں کہ اسرائیل خود تو دنیا بھر سے صیہونیوں کو اپنی مقدس سرزمین پر جمع کر رہا ہے اور وہاں ایک صیہونی ریاست کو مضبوط کر رہا ہے جبکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو ایسے لوگوں کے سپرد کر دیا ہے۔
انصاراللہ یمن کے حالیہ حملوں نے عالمی سطح پر بھی مساواتوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ اکثر یورپی ممالک اور امریکہ روس کے خلاف تیل اور گیس فروخت کرنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ عالمی منڈی میں اس کمی کو سعودی عرب کے تیل سے پورا کر دیں گے۔
ترکی نے سلطنت عثمانیہ کی شان و شوکت دوبارہ پانے کیلئے شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی مدد کر کے بہت بڑا جوا کھیلا لیکن وہ یہ جوا ہار بیٹھا ہے۔ اس وقت نہ صرف صدر بشار اسد کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے بلکہ شام آرمی شمال میں تکفیری دہشت گروہوں کے آخری گڑھ یعنی صوبہ ادلب کو آزاد کروانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔