صنعا کی جانب سے خلیج تعاون کونسل کی دعوت قبول کرنے سے انکار کی تصدیق اس وقت ہوئی جب میڈیا ذرائع نے انکشاف کیا کہ سعودی حکام نے سعودی عرب میں مقیم تمام یمنیوں - اساتذہ، طلباء اور مزدوروں کو ملک سے نکال دیا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی صدر سے رجب طیب اردگان کی ملاقات کا ترکی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور یہ ملاقات محض سیاسی ڈرامہ تھا۔ اگرچہ رجب طیب اردگان نے اس ملاقات میں فلسطینیوں اور مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور دوبارہ دو ریاستی راہ حل پر زور دیا تھا لیکن سب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حتی اسرائیلی حکمرانوں کی جانب سے دو ریاستی راہ حل قبول کر لئے جانے کی صورت میں بھی فلسطینی اسے بہترین راہ حل نہیں سمجھتے۔
"کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جلد کا رنگ سیاہ ہے یا ہم عربی بولتے ہیں یا ہم حجاب پہنتے ہیں؟" ایک آزاد فلسطینی خاتون عائشہ الکرد نے اپنی گفتگو کا آغاز یوں کیا۔ وہ بین الاقوامی برادری میں انسانیت کے تصور کے دوغلے پن اور ایک طرف سے یوکرین کے بحران اور دوسری طرف مسئلہ فلسطین کی نسبت ان کے متضاد رویہ پر برہم ہیں۔
صدر اردوگان نے ہرزوگ کو ترکی بلا کر اسلامی دنیا کے ایک اہم رکن ملک میں بیٹھ کر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی صہیونی کوششوں کو جاری رکھا اور دروغ گوئی اور جعلی پن کی یہودی خصلت کو بروئے کار لاتے ہوئے کہا: "دو ملکوں کے عوام ابراہیم (ع) کے فرزند ہیں اور ابراہیم (ع) اللہ کے مؤمنوں کے باپ ہیں اور ہمیں مشترکہ مستقبل کے لئے تمام تر اختلافات کا خاتمہ کرنے کے لئے کوشاں رہنا چاہئے"۔
اردوگان کی دوہری پالیسیوں نے بین الاقوامی سطح پر ترکی کی پوزیشن کو متزلزل کرکے رکھ دیا ہے۔
عجیب دنیا ہے یہ، جہاں فلسطینی کاز کی حمایت اور صہیونی ریاست اور یہودیت کے خلاف جدوجہد کے دعویدار یکے بعد از دیگرے اپنا اصل چہرہ بےنقاب کررہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ حق و باطل ابھر کر سامنے آیا ہے، ہدایت ضلالت سے الگ ہوکر ابھری ہے۔ تو جو طاغوت [بڑے اور چھوٹے شیطانوں] کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان ﻻئے تو اس نے مضبوط رسی کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گی۔
قدس شریف کے قابض یہودیوں اور ان کے مغربی حامیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کی مزاحمت نہ صرف عرب حکومتوں کے سائے میں انجام نہیں پائی ہے بلکہ فلسطینی مزاحمت ایسے حالات میں انجام پائی ہے اور جاری رہی ہے جب ترک صدر سمیت عرب حکمران یہودی ریاست کے ساتھ ساز باز اور تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔
اسحاق ہرتزوگ کل اردگان کے مہمان ہیں، ترک عوام نے اسرائیل کا پرچم جلا کر سفر کا خیر مقدم کیا ہے۔
راقم الحروف کی درخواست ہے کہ عقائد کا معاملہ انتہائی حسّاس معاملہ ہے۔ جب ہم کسی کے عقیدے کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل اس کے قتل کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہوتے ہیں۔