سید حسن نصراللہ انہی الٰہی علماء میں سے تھے، جنہوں نے اپنی چالیس سالہ زندگی کو مقاومت کے لیے وقف کر دیا، اور بالآخر اپنی قربانی سے اسلام اور محور مقاومت کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
سید حسن نصراللہ کی سیاسی مہارت نے ان کی تقاریر کو لبنان کے مختلف مذاہب، مسالک اور فرقوں کے درمیان اتحاد کا ایک محرک بنا دیا تھا۔ ان کے باعث، سالوں کی فرقہ وارانہ تقسیم اور اختلافات کے بعد، لبنان میں ایک مشترکہ سماجی شناخت کی بنیاد رکھی گئی۔
صہیونی مطالعاتی اور اسٹریٹیجک مراکز، حتیٰ کہ اس ریاست کے رہنما بھی "سید حسن نصراللہ" کو عرب دنیا کے واحد رہنما کے طور پر یاد کرتے ہین ایک ایسے رہنما جو ہمیشہ اپنی باتوں میں سچے رہے۔
باوجود اس کے کہ مزاحمت کے دشمنوں نے اندرونی اور بیرونی سطح پر رکاوٹیں کھڑی کیں، تاکہ عالمی مزاحمت کےایک اہم پیغام کو دنیا تک پہنچانے سے روکا جا سکے: اس کے باوجود بھی لوگ آئیے اور یہ کہنے ہوئے آئے "ہم نصراللہ کے احترام میں کھڑے ہیں تاکہ دنیا کے سامنے ثابت کر سکیں کہ مزاحمت ختم ہونے والی نہیں ہے۔"
جب سے "سید حسن نصر اللہ" کے جنازے کی تشییع کا وقت اعلان ہوا ہے، ہر روز اس کی روک تھام کے لیے کوئی نہ کوئی نیا منصوبہ بن رہا ہے ، گویا "شہید سید" کے پاکیزہ جسد کے خلاف ایک عالمی جنگ جاری ہے۔
"سید حسن نصراللہ" محض کسی مزاحمتی تحریک کے رہنما نہیں تھے، بلکہ وہ خطے کی سب سے مؤثر شخصیات میں سے ایک تھے، جنہوں نے مزاحمت، بالخصوص فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اس کی راہنمائی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس تحریک کو پتھروں سے لے کر "طوفان الاقصیٰ" تک پہنچایا۔
مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیاں اور ان میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت نے صہیونی حلقوں کو شدید حیرت میں ڈال دیا ہے۔
قاہرہ کی جانب سے صحرائے سینا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافے اور اس کی مضبوطی نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا، اور صیہونی حلقوں نے اسرائیلی فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ممکنہ فوجی تصادم کے لیے تیار رہے۔
عرب ممالک اب بھی فلسطین کے مسئلے کے دفاع کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر صیہونیوں کے اعتراف کے مطابق، انہوں نے غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو خورد و نوش کی اشیاء سے لے کر اسلحہ تک فراہم کیا۔