جنرل سلیمانی پر حملے کا فیصلہ امریکی خارجہ پالیسی کے ان فیصلوں میں سے ایک ہے جس کے انجام اور عواقب کو کسی قسم کی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ امریکی حکام پر لازم ہے کہ اس سادہ لوحانہ سوچ کو ترک کر دینا چاہئے کہ اگر کوئی ان کے مفادات کے خلاف ہے تو اسے مار دینا چاہئے۔
شہید قاسم سلیمانی (رہ) کے فکری مکتب کو تفصیل سے جاننے اور سمجھنے کے لیے شہید کی عملی زندگی کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان کی ولایت، انقلاب، دفاع، شہادت، مدافعینِ حرم، ثقافت اور ہنر کے حوالے سے تقاریر کے مختصر مگر مفید کتابی مجموعے "برادر قاسم" کے مطالعہ کی بھی تاکید کروں گا۔
شیخ نمر نے اس منصوبے اور منشور کو ’’عریضۃ العزۃ و الکرامۃ‘‘ (عزت و وقار کی عرضداشت) کے عنوان سے سعودی عرب کی حکومت کو پیش کیا اور اس کے بعد اپنے اس ایجاد کردہ منشور کو عملی جامہ پہنانے کے طریقہ کار کو نماز جمعہ کے خطبوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔
مکتب قاسم سلیمانی نے ترقی کی، وسعت پیدا کی اور استحکام حاصل کیا۔ اس مکتب نے وہ تمام بت توڑ دیے جو امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم نے خطے میں ایجاد کر رکھے تھے اور ان کے قریب جانے کو بھی ممنوع کر رکھا تھا۔
نصرت الٰہی پر یقین رکھنے والے شہید قاسم سلیمانیؒ وہ نایاب عبقری شخصیت، دور اندیش مفکر اور نڈر مجاہد تھے، جنہوں نے رضائے رب اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت میدان جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے، نہ صرف جنگ بلکہ ہمیشہ علاقائی و عالمی سطح پر امن و استحکام کے قیام میں بھی ایک مثبت کردار ادا کیا۔
جب تک ایران کا ایٹمی پروگرام جاری رہے گا، اس ملک کو مشترکہ امریکی-صہیونی دھمکیاں جاری رہیں گی/ امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے دورہ تل ابیب کا مقصد فریقین کے درمیان ہم آہنگی ہے / دریں اثنا صہیونی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ویانا مذاکرات پر اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تنازعہ جاری ہے۔
دینی شعبوں میں موجودہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے حوزہ علمیہ عمومی پالیسی، اہداف، ترجیحات، حکمت عملی اور متعلقہ ضوابط اور قوانین کی طویل مدتی، درمیانی مدت اور قلیل مدتی حوزہ علمیہ کی مذہبی سرگرمیوں کو دستاویزات کی بالادستی کے فریم ورک کے اندر منظور کرنے کے لیے نیز حوزہ علمیہ سرکاری اور غیر سرکاری بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعامل کے طریقہ کار کا مختلف مذاہب کے درمیان جائزہ لینے کے لیے پرعزم ہے۔
امریکی میگزین فارن پالیسی نے لکھا: جہاں سعودی ولی عہد ایم بی ایس (محمد بن سلمان) سعودی عرب کی ثقافت اور عقائد و افکار بدلنے کی کوششیں کررہے ہیں وہیں سعودی عرب کی حدود میں منشیات کے استعمال میں بےتحاشا اضافہ ہؤا ہے۔
صورت احوال یہ کہ حال ہی میں غاصب صہیونی ریاست کی طرف سے کچھ یہودی ربیوں نے انقرہ کے صدارتی محل میں ترک صدر رجب طیب اردگان سے بات چیت کی جس پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔