زمینی حقائق یہ ہیں کہ سعودی عرب میں بادشاہت کا تاج ایک ایسے شخص نے زبردستی اپنے سر سجا لیا ہے، جو نہ صرف آل سعود بلکہ اسلام کیلئے بھی خطرہ ہے۔ محمد بن سلمان کے یہ اقدامات اس جانب اشارہ ہیں کہ سعودی عرب میں بہت جلد انقلاب اٹھنے کو ہے، جو اس سارے منظر نامے کو ملیا میٹ کرکے سعودی عرب کو دوبارہ اس کا اسلامی تشخص لوٹا دے گا اور وہ دن بہت قریب ہے، کعبے میں بہت جلد مجاہد کی اذان آنیوالی ہے۔
انصاف کا تقاضہ یہ کہتا ہے کہ جو بھی یہودی صہیونی فلسطین میں باہر سے آکر قابض ہوئے ہیں، وہ سب اپنے وطن کو جائیں، جن فلسطینیوں کو ان کے اپنے وطن سے جبری جلاوطن کیا گیا ہے، ان کو واپس لایا جائے۔ افسوس ہے ان عرب حکمرانوں پر کہ جو خود بھی دھوکہ میں ہیں اور فلسطینی عوام کو بھی دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔
لگتا ہے کہ بینٹ کے دورہ امارات کا اقتصادی پہلو بہت نمایاں ہے اور تل ابیب بھی یہی کچھ چاہتا ہے۔ لیکن دو طرفہ فوجی اتحاد کے بارے میں مختصر سی بات یہ ہے کہ جب سے امریکہ نے اپنا ہاتھ مشرق وسطی سے کھینچ لیا ہے، امارات اور اسرائیل کے درمیان فوجی معاہدے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اور یہ وہی بات ہے جو اسرائیلی سیکورٹی تجزیہ کار یوسی ملیمین (Yossi Milliman) نے کہی تھی۔
آج، اسلامی مزاحمت عالمی سلامتی، معیشت اور سیاست کے شعبوں سے متعلق فیصلہ ساز اداروں میں بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر کردار ادا کرنے کے مواقع حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، اس نے مزاحمت مخالف فیصلہ سازیوں کو روکا ہے اور اپنے اراکین کے لیے اقتصادی، سیاسی، اور دیگر شعبوں میں کامیابیوں کے راستے کھول لئے ہیں۔
حیرت ہے، یوسی کوہن یہ بات اس انداز میں کر رہا ہے کہ جیسے وہ گن لے کر ایرانی سائنسدانوں کے سر پر کھڑا ہے۔ اسرائیلی ایسے جھوٹے اور بے بنیاد بیانات دے کر نفسیاتی طور پر ایران کو خوفزدہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
اسرائیلی حکام کے یو اے ای کے دورے کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب درحقیقت ان سفارتی ملاقاتوں سے اسرائیل سے اپنے باقاعدہ تعلقات کے دروازے کھول رہا ہے، کیونکہ اسرائیلی حکام کو لے جانے والا طیارہ سعودی عرب کے آسمانوں سے ہوتا ہوا ابوظہبی گیا ہے۔
مسلمان فلسطین کو بھول گئے ہیں کیا وہ قدس اور مسجد الاقصیٰ کو بھی بھول جائيں گے؟ / بیت المقدس کے یہودیانے کا دس سالہ عرصہ گذر چکا مگر بیت المقدس آج بھی بیت المقدس اور ایک مسلم اکثریتی شہر ہے۔
"ایسا شہر جو کرہ ارضی میں کسی بھی شہر کی طرح نہیں ہے ۔۔۔ ایسی کمپنیوں اور گھرانوں کا مسکن ہے جو ما وراء الارضی اور نہایت خاص قسم کی زندگی کے در پے ہیں۔۔۔"
صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں شمعون پیریز پروجیکٹ اور محمد بن سلمان اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے درمیان واضح مماثلت واضح ہوجانے کے بعد، عرب ممالک کی رائے عامہ زمانہ حال اور مستقبل قریب میں صہیونی ریاست کے ساتھ "تعلقات معمول لانے کے عمل" کے مرکزی نقاط (Pivots) کے آثار و تفصیلات کو دیکھ سکتی ہے۔