سعودی عرب نے حال ہی میں بحیرہ احمر کے ساحل پر 500 ارب ڈالر کی لاگت سے نیوم (Neom) نامی جدید شہر تعمیر کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور اسے اپنے اقتصادی وسائل کو بڑھانے کے لئے ایک بہت بڑا، قوم پرستانہ منصوبہ قرار دیا ہے۔
اس تحقیق میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترکی تعلقات کو مضبوط کرنے میں پہل کرنے والا تھا، لیکن جس فریق نے "نخرے" اٹھوائے وہ اسرائیل تھا۔ اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ "انقرہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے، تل ابیب نے یہ شرط رکھی کہ انقرہ حماس کے کارکنوں کو ترکی کی سرزمین سے بے دخل کر دے اور اس تحریک سے رابطہ منقطع کر دے۔"
اس وقت سے لے کر آج تک مسلمانوں کے درمیان ایک ہی معاملہ بار بار دہرایا جاتا ہے یعنی فلسطینیوں کی سخت مزاحمت، عربوں کی بھرپور حمایت اور باقی مسلمانوں کی زبردست تائید کے باوجود فلسطین کا مسئلہ جوں کے توں اپنی جگہ قائم ہے جبکہ اسکے برعکس فلسطین میں یہودی علاقوں اور آبادکاروں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے
کچھ لوگ متحدہ عرب امارات کے اقدامات اور تدابیر جو اس سازش کے عام ہونے کا نتیجہ بنی کو ایک زیرکانہ اور چالاکی پر مبنی سمجھتے ہیں۔ لیکن بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا ماسٹر مائنڈ اور مغز متفکر "اسرائیل" تھا اور صرف متحدہ عرب امارات نے ان پر عمل درآمد کیا۔
حزب اللہ کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے کہا: فلسطین کی آزادی کی بحث میں وقت کا مسئلہ اہم ہے۔ فلسطین مرکز ہے جو اگر پرسکون ہؤا اور آزآد ہؤا تو پورا خطہ آزاد ہوجائے گا۔
جودی ہود (Judy Hood) کا کہنا تھا کہ اگرچہ یمن میں سعودی کاروائیوں کا خاتمہ اور یمن سے سعودیوں کا انخلاء، جنگ کے خاتمے میں مدد دے گا اور اس کے باوجود کہ اس تجویز کو قبول کرنا دشوار ہے مگر ہمارا [امریکہ کا] خیال ہے کہ یہی اقدام صحیح ہے۔ اب جو انصار اللہ پسپا نہیں ہورہی تو سعودی عرب جنگ کے خاتمے کا انتظام کرے
یہ مرکزیت ایک روز مسلمانوں کو حاصل ہونی ہے، جس کا وعدہ مسلمانوں سے کیا گیا ہے، ہم کو بھی اب مرحلہ وار مقاصد اور اہداف کے حصول کی حکمت عملی کی جانب بڑھنا ہے، اس کے لیے کسی ریاست یا حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی تخلیق کا مقصد ہی بڑی طاقتوں کے استعماری مقاصد کو پورا کرنا تھا۔ بظاہر یہ ادارہ دنیا میں امن قائم کرنے اور تمام قوموں کو ان کے حقوق دینے کے عنوان سے وجود میں لایا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انجمن اقوام (League of Nations) ہو یا اس کی جانشین اقوام متحدہ (UNO)، یہ بڑی طاقتوں نے اپنے مقاصد کے لیے قائم کی تھیں۔
صورت حال یہ ہے کہ ایک ملک کا کوئی باشندہ اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی مالی اور اخلاقی حمایت کی پاداش میں گرفتار کیا جائے تو اس کی گرفتاری کی خبر فوری طور پر ان "عربی ذرائع ابلاغ" کی شہہ سرخی میں تبدیل ہوجاتی ہے، جو غاصب اسرائیلی ریاست کے ساتھ عربوں کے تعلقات بحال کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔