طالبان نے افغانستان میں حکومت تشکیل دیتے وقت اعلان کیا تھا کہ وہ تمام اقوام، طبقوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ لہذا اب انہیں قندوز میں رونما ہونے والے اس بہیمانہ واقعے کی تحقیق کرکے اس میں ملوث افراد اور گروہوں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیئے۔
اگر یہ کہا جائے کہ ہر کسی کی دشمنی کا نشانہ افغان شیعہ کو ہی بنایا جا رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اس وقت افغانستان میں برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے تمام تر معاملات کے ذمہ دار طالبان ہیں، افغانستان میں رہنے والے تمام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت طالبان کی ذمہ داری ہے۔ افغان شیعہ شہریوں کیلئے مصائب و مشکلات ایک طویل عرصہ سے برقرار ہیں۔ افغان شیعہ شہری ہی اپنے ملک کی خاطر بہت قربانیاں دے دیں، اب جینے کا حق انہیں بھی ملنا چاہیئے۔
آذر بائیجان کو انہی بنیادوں پر فلسطینی بھائیوں کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔ جس طرح آرمینیا نے ظلم و جبر سے آذربائیجان کی زمین ہتھیا لی تھی، اس سے کہیں زیادہ جابرانہ انداز میں اسرائیل نے فلسطینی زمینوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔ جب تک خطے میں صیہونی موجود رہیں گے، ان کی نحوست سے امن نہیں آئے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ آذر بائیجان خود کو اسرائیل سے الگ کرے اور تجارتی معاملات کو مذاکرات سے حل کرے، تاکہ خطے کا امن بحال ہو، ورنہ صیہونی ریاست مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کی پالیسی کے بعد شیعہ کو شیعہ سے لڑانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
جو چیز علاقے کے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اس کی ایک مثال گزشتہ روز افغانستان کے صوبے قندوز کی مسجد میں شیعہ نمازیوں میں کیا جانے والے خود کش حملہ تھا جس نے 150 نمازیوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا اور دسیوں کو زخمی بنا دیا۔
اس اجلاس کا ایک اور مقصد اس تعطل کو توڑنا ہے جو اسلامی ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے سلسلے میں پیدا ہو گیا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم نے گذشتہ برس متحدہ عرب امارات اور بحرین سے دوستانہ تعلقات کا معاہدہ کیا تھا جبکہ ایک سال سے اس کی یہ مہم انہی دو عرب ممالک تک محدود ہے۔ لہذا صہیونی حکمران اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
وہ ایران، عراق، شام، ترکی، قطر، عمان سمیت خلیجی ریاستوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان ممالک کی نبض کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں، اسلامی بیداری کا سدباب کرنا چاہتے ہیں اور بحرین، نجد و حجاز، امارات اور مصر میں اسلامی بیداری کے ذریعے نئی تبدیلیوں کا انسداد اور ان ممالک اور ریاستوں میں موجود استبدادیت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔
ایس آر ایم جی انڈیپنڈنٹ کی مدد سے عربوں کے لئے عرب انڈیپنڈنٹ، ایرانیوں کے لئے فارسی انڈیپنڈنٹ، ترکوں کے لئے ترک انڈیپنڈنٹ اور پاکستانیوں کے لئے اردو انڈیپنڈنٹ پر تشہیری مہم چلانا چاہتی ہے۔ وہ عربی، فارسی، ترکی اور اردو بولنے والے ممالک پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔
ایک امریکی اخبار نے ایک نوٹ میں اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان میں قومی نجات دہندہ کا کردار ادا کر کے امریکہ کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔
صہیونیوں کا یمن کے لیے ایک طویل المدۃ منصوبہ تھا جو کبھی یمن سے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے، کبھی یمن میں اپنے جاسوس چھوڑ کر اور کبھی اپنے آلہ کار سعودیہ کے ذریعے نیابتی جنگ کی صورت میں عملی جامہ پہن رہا ہے۔