جبکہ ٹرمپ اور نیتن یاہو غزہ کے لوگوں کو بے گھر کرنے پر اصرار کرتے ہیں، مصر ایک متبادل منصوبہ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس منصوبے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غزہ کے عوام کے مطالبات پورے کیے جائیں گے۔
"یونی بن مناخیم" کا کہنا ہے: "غزہ میں جنگ کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے اور فلسطینی نعرہ لگا رہے ہیں، 'ہم محمد ضیف کے سپاہی ہیں۔' یہ 15 ماہ کی جنگ کے بعد غزہ کی صورتحال ہے۔"
اب اسموتریچ اور ان کی جماعت "مذہبی صہیونیت" مغربی کنارے میں اپنے مخصوص قوانین نافذ کر نے کے درپے ہیں اور ان قوانین کے ذریعے ایک نئی حکمرانی کی بنیاد رکھ چکے ہیں، جس کا مقصد فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنا اور مغربی کنارے کو "اسرائیل" میں ضم کرنا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے نے اسرائیل کے اندر اہم تبدیلیوں کو جنم دیا ہے، جو تاحال جاری ہیں۔ ایسے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کا اگلا شکار کوئی اور نہیں بلکہ خود "نیتن یاہو" کی شخصیت ہوگی۔
نتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کو ایک مہلک نظریہ نے گھیر رکھا ہے، جس کی قیادت ایران کر رہا ہے۔
غزہ میں نیتن یاہو کے اہداف کی ناکامی اور القسام کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل اور پوری دنیا کو پہنچنے والے بڑے صدمے کا ذکر کرتے ہوئے عطوان نے کہا کہ جن لوگوں نے نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا وہ مزاحمت کے بہادر جنگجو تھے جنہوں نے اسرائیلی فوج کو بے بس کر دیا، ٹرمپ نے نہیں۔
غزہ میں تقریباً سولہ ماہ کی بمباری، صہیونیوں کے جرائم اور قتل عام کے بعد، ایک طرف، اور غزہ کے لوگوں کی ناقابل بیان اور قابل ستائش مزاحمت کے بعد، اب یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلسطین اور مزاحمت کا مستقبل کیا ہوگا؟
جنگ کے بعد غزہ کی صورتحال اب بھی غیر یقینی ہے، لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر تمام امکانات "حماس" پر ہی منتج ہوتے ہیں۔
عمر فاروق گرگرلیاوغلو نے حکومت کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کے خاتمے کے دعوے کو جھوٹ قرار دیا اور سیٹلائٹ تصاویر اور بحری ٹریکنگ ڈیٹا کے ذریعے نِسوس ڈیلیوس اور سی ویگور جہازوں کے ترکی کے جیحان اور مقبوضہ علاقوں کے اشکلون بندرگاہ کے درمیان تیل لے جانے کے شواہد پیش کیے۔