شام میں حالیہ تبدیلیوں نے اقتدار کی منتقلی کو انتہائی پیچیدہ اور کشیدہ بنا دیا ہے۔ اسلام پسند باغیوں کے اتحاد، ہیئت تحریر الشام، جس نے دمشق کی جانب تیزی سے پیش قدمی کی، اب کئی حریف اپوزیشن گروہوں میں سے ایک ہے جو بشار الاسد کے بعد شام کے نظم و نسق پر متفق ہونا چاہتے ہیں۔
ان واقعات کے دوران، نہ میں نے اور نہ ہی کسی فرد یا گروہ نے پناہ یا استعفیٰ کا ذکر کیا۔ ہمارے سامنے واحد راستہ دہشت گرد حملوں کے خلاف دفاع جاری رکھنا تھا۔
اردگان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو جوا انہوں نے شروع کیا ہے، جس نے آج شام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہ مستقبل قریب میں ان کی حکومت کے لیے وہی انجام لے کر آ سکتا ہے جو بشار الاسد کے لیے سوچا گیا تھا۔
بشار الاسد کے بعد شام کا بحران مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے، مگر امت مسلمہ کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنے اتحاد اور حکمت سے اس مسئلے کو حل کرے۔ ایک مستقل اور منصفانہ سیاسی حل ہی شام کے عوام کو امن، ترقی، اور خوشحالی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
شام کی سرزمین، اس ملک کی فوج کے 11 دن میں ہتھیار ڈالنے کے بعد دہشت گردوں اور اسرائیل کے نسل پرست حکومت کے قبضے میں چلی گئی اور اس کے فوجی ڈھانچے کو بھی صرف 3 دن میں تباہ کر دیا گیا۔
ایسی صورت حال میں جبکہ صہیونی حکومت کے شام کے بنیادی ڈھانچوں پر حملے مسلسل جاری ہیں اور اسرائیلی فوج کے مطابق شام کی 70 سے 80 فیصد فوجی صلاحیت ختم ہو چکی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران نے ان حملوں اور جولان کے مزید حصوں پر اسرائیل کے قبضے کی سخت مذمت کی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے جنگِ ارادے کو مستقبل کا تعین کرنے والا عامل قرار دیا۔ انہوں نے عراق کی مثال دی کہ جہاں امریکہ کو آخرکار پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اسی طرح، شام میں بھی مزاحمتی محاذ سے جڑے جوان حالات کو تبدیل کریں گے۔
جب جولانی کے دہشت گردوں نے حلب میں ایران کے قونصل خانے پر حملہ کیا تو انہوں نے فلسطین کے جھنڈے کے علاوہ تمام علامتوں کی بے حرمتی کی اور ظاہر کیا کہ وہ فلسطین کے حمایتی ہیں اور ایران کے دشمن۔ لیکن اب، جب اسرائیل نے ان کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملہ کیا، تو ان کی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔
اس جنگ بندی سے حزب اللہ کو ایک فرصت ملی ہے کہ وہ اپنی توانائی کو دوبارہ بحال کر سکے اس لیے جنگ کے دوران جہاں حزب اللہ کا بے حد مالی نقصان ہوا ہے وہاں جانی نقصان بھی بہت ہوا ہے اتنے عظیم کمانڈروں کی جانیں چلی گئی ہیں ان نقصانات کی بھرپائی کے لیے حزب اللہ کو ایک فرصت کی ضرورت تھی