اہل فلسطین کو اسرائیل جب چاہتا تھا روند دیتا تھا۔ فلسطینیوں کے پاس لڑنے کے لیے غلیل اور پتھر ہی ہوتے تھے۔ اب یہ اپنے میزائل اور راکٹ بنا رہے ہیں اور ان کے ڈرونز نے بھی تباہی مچا رکھی ہے۔ آپ کے خیال میں اہل فلسطین کو یہ اسلحہ اور یہ قوت مغرب یا خطے کے عرب ممالک نے اپنے تحفظ کے لیے دی ہے؟
فلسطین لڑ رہا ہے اور کچھ عرب ممالک فلسطین کے مستقبل کے لئے جلسے منعقد کر رہے ہیں۔
آج شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کو چار سال بیت چکے ہیں۔ لیکن طوفان الاقصیٰ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج بھی شہید قاسم سلیمانی اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ آج صیہونی حکومت کی ذلت اور رسوائی اس بات کی دلیل ہے کہ شہید قاسم سلیمانی زندہ ہے۔
ہر روز کوئی نہ کوئی تباہ کن خبر ملتی ہے کہ دل پسیج جاتا ہے۔ غزہ کی اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر کو اسرائیلی افواج نے بمباری میں پورے خاندان سمیت شہید کر دیا ہے۔ وہ انگلش زبان کے ماہر تھے اور فلسطین کا مقدمہ بڑی خوبصورتی سے دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے۔ افسوس اس خالص اکیڈمک شخصیت کو بھی شہید کر دیا گیا۔
صہیونی حکومت نے جس گنبد آہنی کی تعمیر میں ملینوں ڈالر خرچ کر دئے تھے جس کو لیکر دنیا بھر میں مشہور تھا کہ اسرائیل کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا اسے دنیا نے مزاحمتی محاذ کے سامنے دم توڑتے ہوئے دیکھا ۷ اکتوبر صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے کا وقت تھا جب راکٹوں کی برسات شروع ہوئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اسرائیل کے شہروں میں غزہ کے راکٹ نظر آ رہے تھے
عبدالمالک الحوثی نے کہا: ’’امریکی یمن کے خلاف جنگ میں واپس آنے کی دھمکی دے کر اور یمن میں جنگ بندی پر رضامندی کے عمل میں رکاوٹیں ڈال کر ہم پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ ہم فلسطین کی حمایت نہ کریں، لیکن ہمارے لوگ کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور نہ ہی ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور انگلستان کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور نہ ہی ان کے ایجنٹ بنںں گے۔"
ان دستاویزات کے مطابق ایک تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ غزہ پر عارضی قبضہ کر لیا جائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں مصر، اردن اور اسراٸیل کے درمیان ایک مشرکہ سیاسی انتظامات کا لاٸحہ عمل وضع کیا جائے، جس کے تحت تل ابیب اس طرح کے ڈھانچے کا وفاقی دفتر ہو۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج حق و باطل کی جنگ ہے، آج تاریخی دن ہے، آح مسجد الاقصی کے دفاع کا دن ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے موقف اور ان کی انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کی غیر مشروط اور ہمہ گیر حمایت نیز غزہ کی موجودہ جنگ کے لیے فلسطینیوں بالخصوص حماس کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کے باوجود کئی امریکی سیاست دان صیہونی حکومت کی جارحانہ نوعیت اور فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے عشروں پر محیط مظالم سے بخوبی واقف ہیں۔