آج سید حسن نصراللہ نے اسراٸیل کے خلاف کسی مکمل جنگ کا اعلان نہ کرکے اپنی دانش اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے میں جبکہ دنیا کے تقریباً تمام اسلامی ممالک اہل فلسطین سے مکمل کنارہ کشی کیے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر اسراٸیل سے خفیہ اور اعلانیہ تعلقات رکھتے ہیں اور اسراٸیل سے زیادہ ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں
اسرائیل کی اشکلون بندرگاہ سے روزانہ 1 لاکھ 80 ہزار بیرل درآمد ہوتا ہے۔ یہ بندرگاہ غزہ کے قریب ہے اور طوفان الاقصی آپریشن شروع ہونے کے بعد بند کر دی گئی ہے۔ یمن کے حوثی مجاہدین نیز عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل کی ایلات بندرگاہ کو کئی بار میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
درحقیقت استعمار اور صہیونزم کیخلاف ایک ہمہ گیر اعلانِ جنگ ہے، اور اس کا نصب العین فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں کیخلاف مظاہروں اور مسلح مزاحمت میں شدت آ گئی ہے۔ آزادی کی یہ جنگ ایک ایسی صبح روشن کی نوید دیتی ہے، جو فلسطین کے مسلمان مجاہدوں کی کوششوں سے جلد ہی طلوع ہونے کو ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی ایلچی الجزیرہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ عام شہریوں کے خلاف شدت پسندی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے غزہ میں ہونے والی تباہی کو تاریخ میں بے مثال قرار دیا اور عالمی برادری سے جلد از جلد انسانی امداد غزہ پہنچانے کا مطالبہ کیا۔
ایران تمام مسلم ممالک کو وہ مسجد الاقصیٰ اور فلسطینیوں کے دفاع کیلئے دعوت دیتا ہے۔ اس سلسلے میں جمہوری اسلامی ایران کے اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی اجلاس کی میزبانی کی تجویز بھی پیش کی ہے، تاکہ مسلم ممالک کے سربراہان باہمی تبادلہ خیال کر سکیں اور اس نازک صورتحال میں صیہونی حکومت کے بین الاقوامی جرائم کے خلاف کوئی مضبوط و قطعی لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔
صیہونی دشمن کی طرف سے جاری شدید جنگ میں نسل کشی اور مکمل محاصرے کے تناظر میں وہ غزہ کی پٹی کے خلاف آپریشن "الاقصیٰ فلڈ" میں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد چھیڑ رہا ہے، جس کا اعلان گذشتہ ہفتے کے روز فلسطینی مزاحمتی تحریک نے کیا تھا۔
صد افسوس حقوق بشر کا علم بلند کرنے والے ممالک اسرائیل کی مدد میں پیش پیش ہیں، جن میں امریکہ، فرانس، اٹلی، جرمنی اور انگلینڈ ہمیشہ کی طرح شامل ہیں جوکہ اسرائیل کے ماں باپ ہیں، لیکن فلسطینی مظلوم لوگوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں۔
بابائے قوم کے فرمان کے مطابق آج بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس لئے آج پاکستان اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو بھی نہ صرف ببانگ دہل اپنے موقف کا اعلان کرنا چاہیئے بلکہ فلسطینیوں کی بھرپور مدد کرنی چاہیئے، تاکہ ہماری غیرت قبلہ اول آزاد ہوسکے اور مسلمانوں کے قلب میں گھونپے گئے صیہونی خنجر کو نکالا جا سکے۔
وہ ممالک جو گذشتہ ہفتہ سے صیہونی حکومت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، انہیں غزہ میں عام شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کا قتل نظر نہیں آتا یا شاید وہ دیکھتے ہیں لیکن ان کے انسانی حقوق کی تعریف میں اس قتل کی کوئی جگہ نہیں۔