فلسطینیوں کی لاشوں کو پگھلانے اور بخارات بنانے کا انسانیت سوز جرم صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کی پٹی میں امریکی بموں سے انسانیت کے خلاف جرائم میں سے ایک ہے۔
الغوشیان نے تجویز پیش کی کہ صیہونی حکومت کے ساتھ امن کی طرف بڑھنے کے لیے عرب اور صیہونی اشرافیہ بشمول تجزیہ کاروں، ماہرین تعلیم اور میڈیا کے درمیان تعمیری بات چیت کی ضرورت ہے۔
غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے بعد، اسرائیلی حکومت اب فلسطین کے مغربی کنارے کے لوگوں سے انکی زمینوں پر مزید قبضے اور جبر و تشددکے ذریعے انتقام لے رہی ہے۔
صیہونی ریاست فلسطینی قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ سزا کے ساتھ جلاوطن کرنے کے لیے ایسےمقامات تلاش کر رہی ہے تاکہ انہیں موت کے دستوں کے حوالے کر سکے۔
واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ گوگل کئی سالوں سے اسرائیلی فوج اور وزارت جنگ کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، اور اس نے غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں گوگل کے کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ گوگل نے اسرائیلی فوج کو جدید ترین مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے لیس کیا ہے۔
صیہونی رژیم کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں نے جیل میں تشدد، جنسی زیادتی، کھانے پینے اور علاج سے محرومی کی تلخ داستانیں بیان کی ہیں۔
جب کہ اسرائیلی حکومت پر جوابدہ ہونے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، سینئر فوجی حکام کے استعفوں نے بنجمن نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر دباؤ کو دگنا کر دیا ہے۔
غزہ میں وزارت صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منیر البرش نےکہا ہےکہ شہری دفاع کے اہلکاروں نے شمالی غزہ کی پٹی کی سڑکوں سے 100 سے زائد شہداء کی لاشیں اکٹھی کی ہیں جن میں سے زیادہ تر نامعلوم افراد کی باقیات ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین اور اس کے کیمپ پر منگل کی سہ پہر قابض فوج کی جانب سے شروع کی گئی اسرائیلی جارحیت میں شہداء کی تعداد دس ہوگئی ہے جب کہ 35 زخمی ہوگئے۔