شام کے باغی رہنما "ابو محمد الجولانی" نے ایک انگریزی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی شام کو اسرائیل پر حملے کے لیے استعمال ہونے والی جگہ نہیں بننے دیں گے۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے چار دن پہلے، انہوں نے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت فوجیوں کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود فوج سے سپاہیوں کا فرار جاری رہا اور نتیجہ سقوط دمشق کی صورت سامنے آیا۔
اردگان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو جوا انہوں نے شروع کیا ہے، جس نے آج شام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہ مستقبل قریب میں ان کی حکومت کے لیے وہی انجام لے کر آ سکتا ہے جو بشار الاسد کے لیے سوچا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ حالیہ دنوں میں حملوں کے دوران جنگی طیاروں ہیلی کاپٹر، اسکڈ میزائل، کروز میزائلوں، ساحل سے سمندر میں مار کرنے والے میزائلز، راڈار، اور دیگر ہتھیاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
صہیونی حلقے اور اس سے وابستہ حکام ان دنوں بڑی خوشی اور فخر سے خطے میں "اسٹریٹجک فتح" کے دعوے کر رہے ہیں، اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مزاحمت دم توڑ رہی ہے۔ لیکن حقیقت کیا ہے ہم سمجنے کی کوشش کریں گے ۔
"اردوغان نے 13 سال تک مسلسل اپنی تمام تر توانائیاں شام کی تباہی پر مرکوز رکھیں۔ وہ ایک طرف خود کو ایران، روس اور شام کے اسد کا اتحادی ظاہر کرتے رہے اور آستانہ کے اجلاسوں میں شام کے بحران کا حل ڈھونڈنے کا دکھاوا کرتے رہے، لیکن پردے کے پیچھے وہ اسرائیل کے حلیف مسلح گروہوں کو دمشق فتح کرنے کی تربیت دے رہے تھے۔"
لندن میں ہزاروں افراد نے غزہ میں صیہونی جرائم کے جاری رہنے کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔
یونیسیف نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں نومبر 2024ء کے آغاز سے اب تک ہر روز چار بچے مارے جا رہے ہیں۔
فاران: ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا ہےکہ قابض اسرائیلی حکام ایک سال سے زائد عرصے سے اپنے اتحادیوں اور دنیا کے بیشتر ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ غزہ کی پٹی کو تباہ کرنے کی ان کی کوششیں اپنے دفاع کے لیے ایک جائز عمل ہے۔ […]