"یہ قتل و غارت ایک شیطانی سوچ اور انتہا پسند نظریے کا نتیجہ ہے۔ ہم عرب اور اسلامی دنیا کی خاموشی کی مذمت کرتے ہیں، جو شام کے عوام کے خلاف ان جرائم اور صیہونیوں کے بار بار کیے جانے والے حملوں اور زمینوں پر قبضے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔"
شام سے دہل دہلا دینے والی خبریں سامنے آ رہی ہے ۔ جس بیدردی کے ساتھ ہئیت تحریر شام کے سفاک درندوں نے شام کے ساحلی علاقوں میں بے گناہوں کا قتل عام کیا ہے
قاہرہ میں عرب سربراہ اجلاس کے حتمی بیان کے مطابق غزہ کی تیزی سے تعمیر نو کے منصوبے کی پیش کش اور غزہ پٹی کے رہائشیوں کو بے دخل کیے بغیر غزہ پٹی کی تعمیر نو کے لئے ضروری فنڈز کا جائزہ لینے کے لئے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد "ایک اچھی بات" ہے، لیکن اس میں ترجیحات کو نمایاں طور پر الٹ دیا گیا ہے اور عملی طور پر فوری اور اہم امور کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
فلسطینیوں کا رمضان کی آمد پر اسرائیلی صفحات کی مبارکبادی کے پیغامات پر ردعمل حیرت، غصے اور سوالات کے واضح نشانات کا امتزاج ہے کہ ایک قابض حکومت کی گستاخی کی حد کہاں تک ہو سکتی ہے۔
حماس کے ایک عہدیدار کے اس بیان کے بعد کہ تحریک حماس غزہ کی پٹی میں اس شرط پر اپنی حکمرانی چھوڑنے کے لیے تیار ہے کہ وہ اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گی، کچھ عرب تجزیہ کاروں نے اس خیال پر عمل درآمد کے امکانات اور اس کی کامیابی کی حد کا جائزہ لیا۔
ایسے وقت جبکہ جولانی نے اپنی حکومت کے حوالے سے واضح اور شفاف پالیسی اپنانے کے لیے امریکیوں کو راضی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ٹرمپ انتظامیہ نے اسے نظرانداز کرنے کو ترجیح دی ہے۔
صیہونیوں کی جانب سے لبنان کی پانچ سرحدی چوٹیوں پر قبضہ خفیہ مقاصد کے تحت کیا گیا ہے، لیکن اس اقدام کے نتیجے میں تل ابیب کو بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیاں اور ان میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت نے صہیونی حلقوں کو شدید حیرت میں ڈال دیا ہے۔
یہ معاملہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے لئے اہم ہے، جو برسوں سے امریکی مداخلت اور دشمنی کا تلخ تجربہ بلکہ اب یہ چیز عالمی سطح پر اور خود واشنگٹن کے قریبی اتحادیوں میں بھی امریکہ پر عدم اعتماد ایک مشترکہ تجربہ کی حثیت سے اتنی اہم بن گئی ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔