حماس کے ایک عہدیدار کے اس بیان کے بعد کہ تحریک حماس غزہ کی پٹی میں اس شرط پر اپنی حکمرانی چھوڑنے کے لیے تیار ہے کہ وہ اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گی، کچھ عرب تجزیہ کاروں نے اس خیال پر عمل درآمد کے امکانات اور اس کی کامیابی کی حد کا جائزہ لیا۔
ایسے وقت جبکہ جولانی نے اپنی حکومت کے حوالے سے واضح اور شفاف پالیسی اپنانے کے لیے امریکیوں کو راضی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ٹرمپ انتظامیہ نے اسے نظرانداز کرنے کو ترجیح دی ہے۔
صیہونیوں کی جانب سے لبنان کی پانچ سرحدی چوٹیوں پر قبضہ خفیہ مقاصد کے تحت کیا گیا ہے، لیکن اس اقدام کے نتیجے میں تل ابیب کو بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیاں اور ان میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت نے صہیونی حلقوں کو شدید حیرت میں ڈال دیا ہے۔
یہ معاملہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے لئے اہم ہے، جو برسوں سے امریکی مداخلت اور دشمنی کا تلخ تجربہ بلکہ اب یہ چیز عالمی سطح پر اور خود واشنگٹن کے قریبی اتحادیوں میں بھی امریکہ پر عدم اعتماد ایک مشترکہ تجربہ کی حثیت سے اتنی اہم بن گئی ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
قاہرہ کی جانب سے صحرائے سینا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافے اور اس کی مضبوطی نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا، اور صیہونی حلقوں نے اسرائیلی فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ممکنہ فوجی تصادم کے لیے تیار رہے۔
عرب ممالک اب بھی فلسطین کے مسئلے کے دفاع کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر صیہونیوں کے اعتراف کے مطابق، انہوں نے غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو خورد و نوش کی اشیاء سے لے کر اسلحہ تک فراہم کیا۔
احمد داؤد اوغلو کی غزہ کو ترکی میں ضم کرنے کی مشکوک تجویز حماس کو ختم کرنے اور غزہ میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے امریکی اور اسرائیلی اقدامات کے مقاصد کے عین مطابق ہے۔
صہیونیستی ریاست ، جس نے تاریخی فلسطین کے 85 فیصد سے زیادہ علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے، اب بھی فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے نئے منصوبے بنا رہی ہے، جن میں لاٹری اور قرعہ اندازی جیسے حربے شامل ہیں۔