اس تحقیق میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترکی تعلقات کو مضبوط کرنے میں پہل کرنے والا تھا، لیکن جس فریق نے "نخرے" اٹھوائے وہ اسرائیل تھا۔ اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ "انقرہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے، تل ابیب نے یہ شرط رکھی کہ انقرہ حماس کے کارکنوں کو ترکی کی سرزمین سے بے دخل کر دے اور اس تحریک سے رابطہ منقطع کر دے۔"
امریکہ کے اہداف و مقاصد میں ماضی کی نسبت کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور جو چیز تبدیل ہوتی آئی ہے وہ ان تسلط پسندانہ اہداف کے حصول کیلئے بروئے کار لائے جانے والے ہتھکنڈے ہیں۔
کچھ لوگ متحدہ عرب امارات کے اقدامات اور تدابیر جو اس سازش کے عام ہونے کا نتیجہ بنی کو ایک زیرکانہ اور چالاکی پر مبنی سمجھتے ہیں۔ لیکن بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا ماسٹر مائنڈ اور مغز متفکر "اسرائیل" تھا اور صرف متحدہ عرب امارات نے ان پر عمل درآمد کیا۔
اومیکرون وائرس کی تباہیوں سے جہاں آشنا ہونا ضروری ہے کہ دنیا کو بچایا جا سکے اسی طرح صہیونیت کے وائرس سے خود کو اور دنیا کو بچانا بھی ضروری اس لئے کہ کرونا کے جتنے بھی ورژن ہوں یہ تمام کے تمام صرف انسانی جسم کو ناکارہ بنا کر اسے موت کے دہانے تک لے جاتے ہیں لیکن کرونا سے خطرناک وائرس قوموں اور ملکوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ،پہلے تو صہیونی فکر کا یہ وائرس انسان کے ایمان کو کھاتا ہے اسے مادیت میں غرق کر دیتا ہے اور پھر اسے ان ظاہری و مادی چیزوں کا غلام بنا لیتا ہے جنکی کوئی حقیقت نہیں جھوٹی و کاذب ضرورتوں کو وجود میں لاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کورونا سے زیادہ خطرناک وائرس ہے کہاں؟ پایا کہاں جاتا ہے؟ اور کیسے پتہ کہ یہ وائرس کرونا سے بھی زیادہ خطرناک ہے تو اس کے لئے مطالعہ و غور فکر کی ضرورت ہے اس مختصر سے نوشتے میں ہم اومیکرون کورونا سے زیادہ خطرناک وائرس کی نشاندہی کے ساتھ کوشش کریں گے کہ ثبوتوں کی روشنی میں یہ بتا سکیں کہ یہ کتنا مہلک ہے۔
یہ مرکزیت ایک روز مسلمانوں کو حاصل ہونی ہے، جس کا وعدہ مسلمانوں سے کیا گیا ہے، ہم کو بھی اب مرحلہ وار مقاصد اور اہداف کے حصول کی حکمت عملی کی جانب بڑھنا ہے، اس کے لیے کسی ریاست یا حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی تخلیق کا مقصد ہی بڑی طاقتوں کے استعماری مقاصد کو پورا کرنا تھا۔ بظاہر یہ ادارہ دنیا میں امن قائم کرنے اور تمام قوموں کو ان کے حقوق دینے کے عنوان سے وجود میں لایا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انجمن اقوام (League of Nations) ہو یا اس کی جانشین اقوام متحدہ (UNO)، یہ بڑی طاقتوں نے اپنے مقاصد کے لیے قائم کی تھیں۔
صورت حال یہ ہے کہ ایک ملک کا کوئی باشندہ اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی مالی اور اخلاقی حمایت کی پاداش میں گرفتار کیا جائے تو اس کی گرفتاری کی خبر فوری طور پر ان "عربی ذرائع ابلاغ" کی شہہ سرخی میں تبدیل ہوجاتی ہے، جو غاصب اسرائیلی ریاست کے ساتھ عربوں کے تعلقات بحال کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
سینٹ کام دہشت گردوں کے کابل ایئرپورٹ سے فرار کے بعد خطے میں امریکیوں کا تزویراتی ضعف عیاں ہو چکا ہے۔