جبکہ ٹرمپ اور نیتن یاہو غزہ کے لوگوں کو بے گھر کرنے پر اصرار کرتے ہیں، مصر ایک متبادل منصوبہ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس منصوبے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غزہ کے عوام کے مطالبات پورے کیے جائیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو نے سفارتی مصلحتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ اب اپنے منصوبوں کو سفارتی اصطلاحات کے پیچھے چھپانے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ سالوں تک غزہ کو "غیر مسلح" کرنے یا "غیر جانبدار" بنانے کی ضرورت پر بات کرنے کے بعد، اب وہ براہِ راست ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں
بہت سے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ٹرمپ کا غزہ کے حوالے سے منصوبہ ناقابلِ عمل ہے اور اسے صرف ٹرمپ کی اشتعال انگیز ہرزہ سرائیاں سمجھتے ہیں، جن کا مقصد امریکی داخلی معاملات سے توجہ ہٹانا ہے۔
ڈونالڈ ٹرنپ کی جانب سے دیا گیا نعرہ " پہلے امریکہ" کے اثرات مختلف اداروں اور ملکوں کو امریکی تعاون کے بند ہو نے اور نئی پالیسی کے نفاذ سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔
غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے نے اسرائیل کے اندر اہم تبدیلیوں کو جنم دیا ہے، جو تاحال جاری ہیں۔ ایسے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کا اگلا شکار کوئی اور نہیں بلکہ خود "نیتن یاہو" کی شخصیت ہوگی۔
بیروت میں امریکی سفارت خانہ کی کارکردگی نے گذشتہ برسوں میں اسے ایک سفارتی عمارت سے بدل کر "جاسوسی کا اڈہ" بنا دیا ہے۔
جنگ بندی پر منتہی ہونے والی یہ کامیابی صرف حماس کی نہیں تھی بلکہ ایران، لبنان، یمن اور عراق کی بھی تھیں، جو 15 ماہ تک فلسطینی مزاحمت کے شانہ بشانہ غزہ کی پٹی میں نتانیاہو کے عزائم کے خلاف کھڑے رہے۔
غزہ پٹی میں حماس اور صہیونی ریاست کے درمیان جلد ہی جنگ بندی قائم ہو جائے گی، لیکن جو سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے پیچھے ٹرمپ کے خطے کے لیے کیا منصوبہ ہے؟
غزہ جنگ میں اسرائیل کی ناکامی کے حوالے سے ماہرین کی جانب سے مختلف وجوہات پیش کی گئی ہیں اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس ناکامی کی جڑ فلسطینی عوام کی مزاحمت اور یکجہتی کی طاقت ہے۔