شک نہیں کہ دشمن ہمارے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہمارے ہی مذہب کو ہمارے ہی خلاف استعمال کر رہا ہے تکفیریت کو آپ کیا نام دیں گے یہ مذہب علیہ مذہب نہیں تو کیا ہے ، یہ کہاں سے پنپ رہی ہیں کون اسے سپورٹ کر رہا ہے فرقہ واریت کیا ہے کہاں سے اس جونک کو خون مل رہا ہے کون اسے اسلامی معاشرے کے پیکر میں پیوست کر کے خوش ہو رہا ہے سب کچھ سامنے ہے۔
بر سر اقتدار جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت کی زمام ہمیشہ کسی ایک کے ہاتھوں میں نہیں رہتی ۔وقت بدلتاہے ۔حالات پلٹا کھاتے ہیں ۔حکومتیں گردش زمانہ کی نذر ہوجاتی ہیں ۔مستقبل میں سیاست کی زمام کس کے ہاتھوں میں ہو یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے بہتر ہوگا کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ۔اقلیتی طبقے کو ہراساں کرنا اور ان کے جوانوں کو فرضی معاملات میں گرفتار کرنا بند کیا جائے ۔مسلمان اس ملک کے عزت دار شہری ہیں ۔اور یہ حق ان سے کوئی تنظیم اور حکومت نہیں چھین سکتی ۔ہاں کچھ وقت کے لیے انہیں کمزور اور خوف زدہ ضرور کیا جاسکتاہے ۔اور بس!
آج کچھ جگہوں پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اتحاد وقت کی ضرورت ہے مشترک دشمن کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اس لئے اتحاد ضروری ہے کچھ لوگ اسی بنیاد پراتحاد کو ایک اسٹراٹیجی کے طور پر بیان کرتے ہیں لیکن اس اتحاد کانفرنس میں رہبر انقلاب نے اتحاد بین المسلمین کو ایک اسٹراٹیجی نہیں بلکہ مسلمہ اصول قرار دیتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مسلمانوں کے درمیان تعاون و تعلق ضروری ہے۔
کیا اس نفرت کا سبب وہ احساس کمتری ہے جو ایران کے مد مقابل تمہارے اندر جڑ پکڑ چکا ہے؛ اس لئے کہ ایران نے ۳۵ سالہ بدترین محاصرے اور شدید ترین پابندیوں کے باوجود نہ صرف مغرب کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ کامیاب بھی ہوا اور دنیا کو مجبور کیا کہ اس کے ایٹمی پروگرام کو تسلیم کرے؟
پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف اس کی سازشیں اب راز نہیں رہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی وفات پر اسرائیل کے سب سے موقر اخبار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ واحد اسرائیل دشمن ایٹمی سائنسدان تھا، جو اپنی موت سے بستر پر مرا۔
آج مغربی دنیا کی حکومتیں دنیا کے دوسرے ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے جہاں دوسرے ہتھکنڈوں کا استعمال کرتی ہیں، وہاں ان کے لئے انسانی حقوق کے بارے میں نعرہ بلند کرنا ایک ہتھیار کی مانند ہے، جس کا وہ بے دریغ استعمال کرتی ہیں، جبکہ مغربی دنیا کے ممالک کی اپنی حالت ناقابل بیان ہے کہ جہاں سماجی بربادی سے لے کر انسانی بربادی کی ذمہ دار یہی مغربی حکومتیں اور ان کے ناپاک عزائم ہیں۔
شام اور لبنان کی دشمن قوتیں اور ان سے وابستہ اندرونی ایجنٹ ان دونوں اسلامی ممالک میں خانہ جنگی کی آگ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لہذا وہ لبنان اور شام میں دہشت گرد عناصر کو دوبارہ سرگرمیاں انجام کرنے کا موقع فراہم کرنے کے درپے ہیں۔
صہیونی ریاست میں میڈیا آزاد ہے لیکن اس وقت تک جب تک اس ریاست کے سکیورٹی تحفظات کو کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔ لہذا تمام اخبارات اور نیوز ایجنسیاں اپنی تمام خبروں کو شائع کرنے سے پہلے نگرانی بورڈ کہ جو فوجی افسروں پر مشتمل ہے کو ارسال کرنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل سے تعلقات استوار کرتے وقت آذربائیجان کے بنیادی اہداف صہیونی رژیم کے ذریعے امریکہ اور یورپی ممالک سے قریبی تعلقات استوار کرنا، اپنے ملک میں یہودی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرنا، اسرائیل کے زیر اثر یہودی لابی کی طاقت سے فائدہ اٹھانا، جدید ٹیکنالوجی کا حصول، قرہ باغ تنازعہ حل کرنے میں مدد حاصل کرنا اور ملکی صنعت کو ترقی دینے پر مشتمل تھے۔