یہی وہ مرحلہ تھا کہ عالمی سامراج نے ان بھکاریوں پر نظر ڈالی جنکا داتا و آقا وہ خود تھا جب اس نے یہ محسوس کیا کہ اسلامی بیداری کی لہروں کو پسپا کرنا اس کے بس میں نہیں ہے تو فکری اور مالی تعاون کے ذریعہ سعودی عرب اور ترکی کواسلامی دنیا کا داتا بنانے کے درپے ہوا۔
افغانستان کے اندرونی حالات اور سعودی عرب کی صورت حال کی مماثلت نے محمد بن سلمان کو تشویش میں ڈال دیا ہے کہ کہیں ان کا انجام بھی اشرف غنی جیسا نہ ہوجائے!
افغانستان سے امریکہ کا فرار خود بخود انجام کو نہيں پہنچا ہے اور یہ واقعہ ایک جماعت یا گروہ کی ذہنی صلاحیت سے کہیں زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ افغانستان، عراق اور علاقے کے دوسرے ممالک سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کا منصوبہ، اسلامی جمہوریہ ایران کا منصوبہ ہے جس کو پوری باریک بینی کے ساتھ، خاص قسم کی نظام الاوقات کے مطابق، اور علاقائی قوتوں کے برادرانہ اور مصلحانہ تعاون کے ساتھ، نافذ کیا گیا۔
صہیونی تھنک ٹینک نے مزید لکھا: علاوہ ازیں کہ اسرائیل کو عینی اور عملی لحاظ سے اپنے اقدامات کے لئے اس امریکی منصوبہ بندی کا پورا ادراک کرکے، منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ خواہ اگر امریکہ اسرائیل کے ساتھ اتحاد اور دوستی اور اس کی حمایت میں سچا بھی ہو، پھر بھی یہ امکان بہت کم ہے کہ یہ ملک مستقبل میں اپنے فوجی وسائل کو اس علاقے کے چیلنجوں - بالخصوص ایران کی پالیسیوں سے جنم والے چیلنجوں - سے نمٹنے پر صرف کرنا چاہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر بائیڈن نے انخلاء کے عمل کی تشریح کے ضمن میں زور دے کر کہا کہ چین اور روس کی خواہش ہے کہ امریکہ افغانستان میں تعینات رہیں تاکہ وہ اس کو کمزور کرسکیں۔
کیا افغانستان پر 20 سال تک قبضہ جمانے والے امریکہ کی شکست اور مغربی جمہوریت کی بنیاد پر اس ملک میں ملت سازی میں ناکامی، کیا واشنگٹن کی بین الاقوامی پوزیشن کو متاثر کرے گی؟ اور دوسرا سوال یہ کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال اسرائیل کے لئے کیوں اہمیت رکھتی ہے؟
افغان جنگ کی وجہ سے ہمیں روزانہ 30 کروڑ ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے تھے / ہزاروں فوجی تعینات کرکے امریکہ کی سلامتی کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا / ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا / میں صدر بنا تو طالبان آدھے افغانستان پر قابض ہوچکے تھے / افغانستان سے ذلت آمیز فرار کے بعد امریکی صدر نے اپنی نشری تقریر میں افغانستان سے شرمناک پسپائی کو "غیر معمولی مشن" قرار دیا!
افغانستان اور عراق سے امریکیوں کی تدریجی پسپائی کے پس منظر کو مد نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خواہ افواج، فوجی ساز و سامان یا مالی وسائل کی قلت کی وجہ سے سخت طاقت کی کمزوری، خواہ رائے عامہ اور ذرائع ابلاغ پر استوار نرم طاقت کی کمزوری، امریکی خارجہ پالیسی کی ہدف بندی کے مصادیق پر ضرور اثرانداز ہوگی اور وائٹ ہاؤس مستقبل میں اپنی توجہ، اپنے روایتی حلیفوں کی حفاظت پر مرکوز رکھے گا۔
امر مسلم یہ ہے کہ بڑا شیطان ہار گیا جبکہ افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء ایک بڑے شیطان کی شکست اور پسپائی کی انتہا نہیں، بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے ان کے بتدریج انخلاء کا آغاز ہے۔